کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 213
۱۷/ستمبر کی ۴ بجے شام آخری لمحہ تھا کہ ہمارے جہاز نے یورپ کے ساحل سے لنگر اٹھا یا اور ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس بیگانہ تہذیب وتمدن کی قید سے چھ مہینے کی اسیری کے بعد نجات ملی۔ بحر ٹور یا ٹک سے نکل کر جب ہم نے مدیٹیرینین ( بحر متوسط) میں قدم رکھا تو ہر چیز ہم کو مانوس نظر آنے لگی، یونان سواحل ۲۴ گھنٹے سے زیادہ تک پیش نظر رہے، کریٹ سامنے سے گزرا، پھر یکے بعد دیگرےا ور جزیرے گزرتے گئے، اس اثناء میں اُس عہد کا خیالی منظر سامنےرہا۔ جب یہ تمام سمندر اور اس کے یہ جزیرے ہمارے اسلاف کے دریا پیما جہازوں کے سیر گاہ تھے،
بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی
بحر متوسط جب تک ختم نہیں ہواتھا، یورپ کی برائے نام سرحد ختم نہیں ہوتی تھی، آخر پانچویں دن صبح کے وقت مصر کی سرحد نظر آئی، پورٹ سعید کا سوادِ شہر سامنے تھا۔ اس کے پیچھے نہر سویز کی آبی لکیر تھی جو مشرق ومغرب کو پیوستہ کرتی ہے، جس جہاز میں ہم ہیں اس کا نام گراز ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ فلسطین کی یہودی آبادی کے لیے ہر جہاز سے سینکڑوں یہودی یورپ کےممالک سے فلسطین جارہے ہیں۔ چنانچہ اس گراز پر بھی ۳۰۰ کے قریب جوان مرد وعورت تیسرے درجے میں سوار تھے، پانچ روز ہم نے ان کی جوحالت دیکھی اس سے افسوس ہوا کہ کیا ارض مقدس کی حرمت انہی کے ذریعہ برقرار رکھی جائے گی؟ یہ لوگ سرویا سے ہجرت کرکےآرہے تھے۔ مفلوک الحال اور ناشائستہ ہونے کے علاوہ ان میں یورپ کے تمام معائب موجودتھے۔ ہمارے پاس جہاز کے خلاصی اور افسران آوارہ گرد نازنینانِ اسرائیل سے جس بے باکی کے ساتھ لطف اندوز ہوتے نظر آتےتھے اور خودا ن کے