کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 212
ملا جس میں عورت، مرد اور بچّوں کے چند ڈھانچے ملے جو کھودتےمیں نکلے ہیں اور آتش فشانی کے وقت دب کر مرگئے تھے۔ لاشیں اسی حالت میں اکڑی ہوئی رکھی تھیں، جس حالت میں روح ان کے تن سے نکلی تھی، ا ورپر چڑھ کرصحن دیواروں، سڑکوں، عدالتوں، دکانوں اور کارخانوں کے آثار ملے جن کو دیکھ کر رُومی عہد کی عظمت نظرآئی۔ تھیٹر اور حمام خاص تماشاگاہ تھے، بہرحال ان آثار ہی کو دیکھ یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ قوم عیش پرستی کے کس حضیض اور پستی تک پہنچ چکی تھی، جس کا عکس دیوار وعمارت کے نقشوں سے آج بھی نظر آتاہے۔ برہنہ عورتوں اور مردوں کی رنگین تصویریں ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ انسانی آلۂ تناسل خیر وبرکت سمجھ کر گھروں اور دوکانوں کے دروازوں پر ایک چھوٹے سے طا ق میں نصب کرتے تھے اور وہ اب تک ہیں۔ ایک جگہ اس کی قوت ثقل ترازو میں تُلتی ہوئی نظر آتی ہے، سامنے کی پہاڑیوں سے اب تک دھواں اُٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے، یہاں سے شام کو واپس آکر برنڈزی کی روانگی ہے۔
۷۳ عدن ۲۸؍ستمبر ۱۹۲۰ء
ولایت کا مسافر حرم کی ہمسایہ سر زمین پر کھڑا ہوکر سلام عرض کرتا ہے، اب جب کہ ہر قدم خاک ہند کے قریب پڑرہاہے آپ کو خط لکھنا بظاہر فضول معلوم لیکن یہ خط اگر ڈاک کے جہاز میں جو ہمارے جہاز کے سامنے ہی بندرعدن میں کھڑا ہے پڑگیا، تو مجھ سے پہلے یہ آپ تک پہنچ جائے گا۔ اور اسی طرح سفر کے آخری حالات اختتام سفر سے پہلے آپ کو معلوم ہوجائیں گے۔ ا ور اس طرح ہمارے عہد کی آخری قسط بھی نیک نیتی اور خوبی کے ساتھ ادا ہوجائے گی۔