کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 209
دیا کہ ہم ہندی مسلمان اپنی ان خدمتوں کو اگروہ کچھ ہیں تو اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھتے ہیں۔ سارے اسلامی ملکوں پر جو بلائیں نازل ہوتی رہی ہیں ان سب کا اصلی باعث درحقیقت ہمار اہی وجود ہے۔ ہم ہی وہ کمزور سپاہی ہیں جنہوں نے مقابلے کے میدان میں دشمنوں کے سامنے سب سے پہلے ہتھیارڈالے ہیں “ میرے بعد محمد علی نے مختصر الفاظ میں کہا کہ اب تقریروں سے فائدہ نہیں، ہم کو اب جو کچھ کرنا ہے۔ عملاً کرنا ہے۔ “
اس وقت کا حسرت آگیں نظارہ دل کو زندگی بھر یاد رہے گا، یہیں ایک اور مصری نوجوان سے ملاقات ہوئی، عربی تو خیران کی مادری زبان تھی۔ اس کے علاوہ جرمن، مصری، انگریزی بھی جانتے تھے، جوش خیالات اور اقدامِ عمل میں ہندوستان کی سات کروڑ مسلمان آبادی میں مجھے کوئی ان کا ہمسر نظر نہیں آتا۔ شریف حسین کے اعلان ِ بغاوت کے زمانے میں یہ تن تنہا سر بکف شریف کے کیمپ میں پہنچے ا ور اُن کے اندرونی اسرار سے واقفیت حاصل کی، انہوں نے شریف کے جو مظالم بیان کیے اور انگریز افسرجو مکہ کی فوج کو لڑا رہے تھے، ان کے جوحالات بیان کیے ان کو سُن کر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔
فرانس، افریقہ کے مسلمان سپاہیوں کو یہاں لڑانے کے لیے لایا تھا۔ اور یہ مشہور کرایا تھا کہ کافروں نے تمہارے مقدس مقامات پر قبضہ کرلیا ہے تم کوچل کر ان کے ہاتھ سے چھڑانا ہے۔ استغفراللہ ! استغفراللہ ! علاوہ ازیں جو باتیں معلوم ہوئیں وہ لب پر نہیں آسکتیں۔ محاصرہ مدینہ کے دنوں میں مدینہ کے مسلمانوں نے مُردےتک کھائے۔ کرنل عزیز بے مصر ی جن کا ذکر میں نے کسی پچھلے خط میں کیا ہے، معلوم ہوا کہ وہ قابلِ اعتبار نہیں۔ وہ بھی اس زمانے میں شریف حسین کی فوج میں تھے۔ ان کو انور پاشا سے کچھ پُر خاش ہے، مگر