کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 208
لی ہے۔ مگر ذوقِ سیاست اور درد ِ اسلامی ان کو صحرابصحرا پھراتا رہاہے، بلقان کی جنگ میں سپاہی تھے اور اس جنگ میں جزیرہ عرب کے صحراؤں میں قبائل عرب کے اتحاد کا وعظ کہتے پھرتے تھے۔ ان کے والد مصر کے ایک دولت مند پاشا ہیں‘عمر ۳۵یا ۴۰ کے قریب ہوگی لیکن اب تک شادی نہیں کی ہے۔ کہتے تھے جب تک مصر سے انگریز نہیں نکلیں گے میں شادی نہیں [1] کروں گا۔
دوسرے دن ان کے ہاں ہماری دعوت تھی، مصر، ٹرکی، طرابلس الغرب اور ہندوستان کے چودہ پندرہ مسلمان یکجا تھے۔ کھانے کے بعد ثروت بے ایک ترک نے جو پہلے یمن میں متعین تھے، ترکی جنگی ترانہ گایا، ہم ہندوستانی گوترکی نہیں سمجھ سکتے تھے۔ تاہم کیفِ اثر سےخالی نہ تھے۔ ہمارے لیے ترانہ کا عربی میں ترجمہ ہوا اور میں نے عربی سے اُردو میں ترجمہ کرکے اپنے بھائیوں کو سنایا، ترانہ کا مختصر خلاصہ یہ تھا، ان بڑے بڑے چمن زادوں اور پہاڑوں پر جوآفتاب کی کرنوں سے منّور ہیں نگاہ کرو۔ ہمارے وطن سے زیادہ خوبصورت وطن دوسرا کون ہے۔ بھائیو! آگے بڑھو، ہم عثمانی ترک ہیں، ہمارے مقابلے کوکون آتاہے؟ “
ترانہ کے بعد ڈاکٹر عبدالمجید سعید نے عربی میں ایک پُرجوش تقریر کی۔ جس میں مسلمانانِ ہند کے، اسلامی جذبات وخدمات کا شکریہ اور وفد خلافت کے کارناموں کا ذکر تھا، اس سلسلہ میں انہوں نے کہا کہ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اپنی غیر مرعوب اوردلیرانہ صدائے قُم سے تمام دُنیا کے مسلمانوں کے مایوس اور درد مند قلوب میں دوبارہ امید پیدا کردی۔ اب ہم پھر نئے سرے سے اپنی کوششوں کا آغاز کریں گے، ان کی تقریر کے اختتام پر میں نے
[1] ہماری واپسی کے ایک مدّت بعد جب مصر کو مزید آزادی حاصل ہوئی، یہ مصڑ واپس آئے اوروہاں کی پارلیمنٹ کے ممبر ہوئے اور شبان المسلمین اور بین الاقوامی کے تحریک کے مصر میں روح رواں تھے ۱۹۴۰ءمیں مصرمیں وفات ہوئی ۱۲