کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 207
۷۱ ہوٹل کیورنیمل، روم ( اٹلی) ۱۵/ستمبر ۱۹۲۰ء
مشتاقِ دیدار کو سلام
لو بھئی پہلے تو شک تھا کہ شاید اب بھی جہاز ملے یا نہ ملے، مگر خدا کا شکر کہ محمد علی صاحب کی اندھا دھند کوششوں اور نوری عزیز بے ایک ترک تاجر کی جانفشانی سے جہاز مل گیا۔ نوری عزیز بے روم میں ایک بڑے تاجر ہیں اور اٹلی کی گورنمنٹ میں عزّت رکھتے ہیں، انہوں نے ایک بڑے اطالین عہدہ دار سے لائڈ ٹرسنٹینو کمپنی کو جس کے جہاز پر وہ ہندوستان کا قصہ ہے، تاردلوایا، جواب آیا کہ چار نشستیں محفوظ ہیں ۱۷ /ستمبر کو یہ جہاز جس کا نام گراس یا گراز ہے برنڈزی پہنچے گا اور ۴/اکتوبر تک ہم کو ہندوستان پہنچادے گا۔
روم میں بڑالطف آیا، سب سے زیادہ طرابلس الغرب کے دو مسلمانوں سے مل کر خوشی ہوئی، نوری عزیز بے نے دعوت دی۔ جس میں مختلف ملکوں کے سارے مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کیا۔ نوری بے یہاں اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کا چھوٹا بچہ جس کا نام توران شاہ ہے اور چھوٹی بچی جس کو نگہت خانم کہتے ہیں دونوں اس بزم کی شمع تھے، ہر شخص مسرت کی نظر سے ان کی طرف دیکھتا تھا۔ اور وہ اپنے ہی فرزند نظر آتے تھے، کھانے کے بعد ایک طرابلسی مسلمان جو قاری بھی تھے سب کے اصرارسے قرأت شروع کی آیت أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا، ا س حسن لحن اور درد سے پڑھی کہ لوگوں کے دل بھر آئے۔
قرآن پاک کی یہ پہلی آیت پاک ہے جس میں مدینہ کے مظلوم وبے کس مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی گئی تھی۔ روم کےمقیم مسلمانوں میں مصر کے ایک جوش مجسّم مسلمان ڈاکٹر عبدالحمید سعید بے ہیں۔ فرانس میں انہوں نے ڈاکٹری کی ڈگری