کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 203
دی جائے، آگرہ کے تاج میں جو کام ہے، ا س قسم کا کام یہاں بھی نظر آتا ہے مگر تاج کوکوئی نہیں پہنچتا۔ فلارنس میں یہ کام یہاں تک ترقی کرگیا ہے کہ انہی مختلف رنگ کے پتھر کے ٹکڑوں سے پوری انسانی تصویر بنائی جاتی ہے۔ اور ہر انسان کی سنگی تصویر مجسّم کی جاتی ہے۔ فلارنس چھوڑ کر ۹ ستمبر کو اٹلی کے دارالحکومت رؔومہ میں پہنچے، اٹلی ایک سمت میں یورپ کا آخری ملک ہے۔ اس لیے یہاں کے مغربی قالب میں مشرق کی روح بھی جھلکتی ہے۔ طرز وانداز، عادات واخلاق میں ایشیا کا پَر تو نمایاں ہے۔ شکل وصورت اور رنگ روپ میں بھی مشرق ومغرب کی گنگا جمنا نظر آتی ہے۔ اسی لیے یہاں کی صورتیں مشرقی قوموں کو معیارِ ذوق سے گری ہوئی نظر نہیں آتی ہیں۔ امیر فیصل کی بدولت دیہاتوں میں جانے کا اتفاق ہوا، پرانے طرز کے مکانات، جدید انداز کی عمارتوں کے پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں‘غریب کسان، غلّوں کے کھلیان، کھپریل چھت، زمین میں کھیلتے ہوئے بچّے، پھٹے پُرانے کپڑوں میں انسان ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ کہیں کہیں توبالکل ہندوستان کا دھوکا ہوتا ہے۔ خود شہر رؔومہ میں نئے اور پُرانے تمدن کا جوڑ عمارات ہیں جہاں بجلیوں کے گھوڑے کونے کونے میں دوڑ رہے ہیں تو دوسری طرف ہندوستان کے پُرانے شہروں مثلاً بنارسؔ کی طرح تنگ وپختہ سڑکیں ہیں۔ جن کی دونوں طرف قدیم العہد کھڑکیوں والے مکانات ہیں، کھڑکیوں میں میلے اور پُرانے کپڑے لٹکے نظر آتے ہیں، جدید شہر کے بالکل، متصل رومۃ العظمیٰ کے قدیم کھنڈر ہیں جہاں رومیوں کے گذشتہ جلال وعظمت کے آثار وفن ہیں، اونچی اونچی اینٹ اور چونے کی چوڑی دیواریں گری پڑی اب بھی نظر آتی ہیں اور ان کو سیّاح