کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 201
گئے تھے۔ ایک اور بزرگ علمی کمال بے سے شرف نیاز حاصل ہوا جو مصر کے عالم آثار ِ عربیہ ہیں۔ ان کے نام سے میرے کا ن آشنا تھے۔ بےچارے بیمار ہوکر تبدیل آب و ہوا کے لیے آئے ہیں، مختلف مسائل علمیہ پر ان سے دیر تک گفتگو رہی۔ پردۂ نسواں کے مسئلہ میں انہوں نے مجھ سے اتفاق رائے کیا۔ ملوک الرّعاۃ یعنی قدیم عرب حکمرانِ مصر کے نظریہ کو جس کو میں نے ارض القرآن میں لکھا ہے پسند کیا۔
’ میں اپنی داستان اب جلد ختم کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ نظامِ سفر کے درہم برہم ہوجانے سے طبیعت مکدّر ہے۔ سوئزرلینڈ سے چل کر امیر فیصل کی تلاش میں اٹلی کی خاک چھاننی پڑی۔ وفد کا مصمم ارادہ تھا کہ ہمارے فرائض کا ایک جُز یہ بھی ہے کہ امیر فیصل سے بھی ایک دفعہ نبٹ لیا جائے۔ بہرحال پہلی ہی منزل میں ہم نے ان کا پتہ پالیا۔ میلانومیں معلوم ہوا کہ وہ یہیں مقیم تھے۔ اب یہاں سے قریب ایک قصبہ میں ٹھہرے ہیں، بہرحال ٹیلیفون سے وقت مقرر کرکے دوسرے دن دھوپ اور گرد کے سایہ میں موٹروں پر ان کے فرودگاہ پہنچے۔ تیس چالیس میل سے زیادہ کا فاصلہ تھا۔ ایک کمرہ میں ملاقات ہوئی۔ ہمارا وفد اُس وقت چھ ہندوستانیوں سے مرکب تھا۔ محمد علی صاحب، ابوالقاسم صاحب، شعیب صاحب قریشی، عبدالرحمٰن صاحب صدیقی، حسن محمد حیات اور سیّد سلیمان، میری زبان اور عربی دانی نے جہاں تک یاوری کی ہم نے ان کے گذشتہ کارناموں پر نقد اور آئندہ کے لیے ایک سود مند نظامِ عمل کے ماتحت عربی سلطنت کی تکمیل کے لیے آمادہ کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا۔ طرفین کی ڈیڑھ گھنٹہ گفتگو کا ماحصل یہ نکلا کہ ہمارے ارکانِ ستّہ میں سے