کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 199
تاریخی کھنڈروں میں پہنچ گیا۔ یہاں پہنچ کر یکایک معلوم ہوا کہ کراکودیا جس پر ہم روانہ ہونے والے تھے ملتوی ہوگیا۔ ا س خبر نے صبر وتحمل کے خرمن پر بجلی گرادی اب خداجانے کب روانگی کا سامان ہو۔ ا ور انتظار کی بقیہ گھڑیاں کس دیار ِ غربت میں بسر ہوں، بہرحال اس سوء بخت کا اتنا اچھا نتیجہ ہوا کہ عجائب زار عالم سے ایک دفعہ اور کاغذی ٹیلفون میں آپ سے باتیں کرسکا۔
پیرس حسب معمول وہی تھا جس کانقشہ آپ بار ہا ہمارے خطوط میں ملاحظہ کرچکے ہیں۔ یہ پورا عزم ہے کہ صلح کے ان شرائط کو مسلمان کبھی تسلیم نہیں کریں گے اور نہ وہ اس دائمی ذلت کو تاقیامت گوارا کریں گے۔ اس لیے انگلستان اور فرناس میں جو ”أسلامک انفارمیشن بیورو“ قائم تھے۔ ان کو بھی جب تک بس چلے گا چلاتے رہیں گے۔ لندن کا کارخانہ مسٹر اصفہانی (ایک ہندوستان زاد ایرانی الاصل تاجر ) اور شیخ مشیر حسین قدوائی کے ماتحت رہے گا اور پیرس کا اخبار ایکو دی اسلام اور دفتر ڈاکٹر نہاد شاد کے جن کا نام آپ بار بار سن چکے ہیں تحت میں رہے گا۔ پیرس میں اس انتظام سے فارغ ہو کر سوئزرلینڈ کے دامنِ کوہ میں ہم نے قدم رکھا۔ طرؔیطے، مانترو اور بوٹان قریب قریب آباد ہیں۔ ان میں مصر وٹر کی کے بہت سے پناہ گزین مسلمان انتظار کی گھڑیاں بسر کررہے ہیں۔ ان میں حسب ذیل اصحاب خاص ذکر کے لائق ہیں :۔
۱۔ خلیل خالد بے، انگلستان میں کسی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے، ایک ٹرک کی ڈائری اور ہلال وصلیب وغیرہ کتابوں کے مصنف ہیں، ان کے ترجمے اُردو میں بھی شائع ہوچکے ہیں، اس زمانے میں بھی مسئلہ ٹرکی کے متعلق کئی رسالے لکھے ہیں، ایک رسالہ ”برٹش لیبر پارٹی“ کے نام سے لکھا ہے۔ جنگ بلقان کے آخر میں یہ ہندوستان میں ٹرکش کونسل بھی تھے۔