کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 197
عربی میں ان سے گفتگو کی، طعن وطنز، ذکر ماضی، فتنہ ٔ حاضرہ، مصائب اسلام کے موضوع کے بعد یہ بحث چھڑی کہ ؏ گُزری جو گزرنی تھی اب چاہیے کیا کرنا ْگفتگو میں بجائے جلالۃ الملک ( ہنرمجسٹی کنگ ) کے دولۃ الامیر ( پرنس ) اور جلالہ الملک حسین کےبجائے ہمیشہ شریف حسین کہتا رہا۔ یہ گویا اشارہ تھا کہ مسلمانان ِ ہند نے تمہارے خطابات کو تسلیم نہیں کیا ہے انہوں نے کہا کہ میری نسبت، میری والدہ کی نسبت، میرے خاندان کی نسبت اور عموماً تمام عربوں کی نسبت ساری اسلامی دنیا اور خصوصاً ہندوستانی، مسلمانوں میں بہت سے غلط خیالات پید ا اور بہت سے الزامات قائم ہیں۔ ا فسوس ہے کہ واقعات اس قدر پُر پیچ اور مخفی ہیں کہ فیصلہ مشکل ہے مگر وہ جب اعلان میں آجائیں گے تو ہم کو امید ہے کہ یہ تمام غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔ محمد علی صاحب نے ان کے سامنے بہت سی باتیں پیش کیں، خلافت کے مسئلہ کا ذکر کیا۔ بلادِ مقدسہ کے مستقبل کی گفتگو ہوئی جو گمان تھا وہ تحقیق کو پہنچا کہ ان سے انگریز اور فرانسیسی سیاسی چالبازوں نے اس قدر پرزور زبانی اور تحریری عہد ومواثیق کئے تھے کہ وہ مستقبل کو نہ سمجھ سکے۔ ان سیاسی کھلاڑیوں نے جس طرح مشرق کے ہر قومی خائن سے برتاؤ کیا ہے وہی ان کے ساتھ بھی کیا گیا۔ گو وہ اب بہت کچھ امیدیں دلاتے ہیں لیکن جس کو پہلے پر اعتبار نہیں وہ آئندہ پر کیوں کر اعتبار کرسکتا ہے۔ فیصل کا لمبا قد ہے، لمبا منہ، چھوٹی چھوٹی ترشی ہوئی داڑھی، بڑی آنکھیں، مُسکراکر باتیں کرتے ہیں، بہرحال ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو اور مباحثہ کے بعد ہم لوگ واپس ہوئے، انہوں نے وعدے تو بہت کئے ہیں۔