کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 191
چند سال سے رونق جلسۂ علماء کی ذاتِ مقدس سے ہے۔ سال گزشتہ میں نے بحیثیت ایک خادم ِ علم کے کانگریس میں شرکت کی۔ اور اس مرتبہ کلکتہ میں تو جس طرح بے لوث شرکت علمائے کرام نے کی ہے اس کو سن کر مولانا سید سلیمان صاحب ضرور مسرور ہوں گے اسی طرح علماء کرام نے آزادی ہندوستان کا بھی سبق دینا شروع کردیا ہے۔ ا ول اول اِنِ الْحُکْمُ اِلَّالِلّٰہ کی آواز نے ایوانِ استبداد کو جُنبش دے دی۔ اس کے بعدوزیر ہند کے مقابل کہا گیا کہ اگر جذبات اسلامیہ کا لحاظ نہ رکھا گیا تو بنائے اطاعت یعنی مذہبی آزادی متزلزل ہوجائے گی۔ اس کے بعد کانپور کے خطبہ صدارت میں اس کی توضیح کی گئی۔ میں نے عرض کیا کہ ہم خلافت کے تحفظ کی ضرورت سےہندوستان کی آزادی کو اب تک فرض اسلامی سمجھتے ہیں اس پر (صاد) اعلان آزادی کی تحریک سے کردیا گیاجس کو میں علماء کی جسارت اور ہمّت سمجھتا ہوں، مجھے خود تأمل تھا، مگر یہ (صاد) نہ تھا بلکہ فتوی ہوگیا اور کلکتہ کانگریس سے اس پر عملدرآمد شروع ہوگیا، مولانا سلیمان صاحب ان حالات کو ملاحظہ کرکے بہت خوش ہوں گے اور مولانائے موصوف کے تجربات سیاسیہ سے گروہ ِ علماء اپنی آرائے گرامی کو تقویت دیں گے۔
اللہ تعالیٰ کو جب کوئی امر کرنا ہوتا ہے تواسباب مہیّا کردیتا ہے۔ میں نے جن امور اکارادہ کیا تھا ان میں سے ایک اس امر کی تحریک بھی تھی، نتیجہ سے ناواقف تھا۔ خدا نے اس کو بخیر وخوبی