کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 188
ہندوستان اپنی آزادی کی آواز بلند کرے تو متمدن ممالک کے بے غرض افراد اور جماعتیں اس کی آواز سننے کو تیار ہیں، سلف ڈٹر مینشن اگر دنیا کی ضعیف قوموں کے لیے نعمت ہے تو یہ نعمت ہندوستان کے لیے بھی کیوں نہیں ہے۔ بشرطیکہ وہ اپنی پوری قوت سے اپنی خواہش اور آرزو کو پیش کرے، ورنہ اس کی خاموشی اور سکوت کو ان معنوں میں پیش کیا جارہا ہے کہ وہ آزادی کا متمنی نہیں، بلکہ موجودہ نظامِ حکومت کو وہ بہتر سمجھتا ہے اور اسی پر وہ قانع اور صابر ہے۔ یہ نہ صرف دنیا کی اور قوموں کو باور کرایا جاتا ہے بلکہ خود انگلستان کی نیک نیت جماعتوں اور افراد کو باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اورہماری خاموشی سے ان کو یہ باور ہے۔ بس اب مسلمانوں کاسارا زور اسی پر صرف ہو نا چاہیے۔
انشاء اللہ ایک مہینہ بعد بمبئی میں ملاقات ہوگی۔ رخصت !
مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلی کے نام :
۶۹ لندن، ۲۶ اگست ۱۹۲۰ء
مخدوم اجل، السلام علیکم !
آپ [1]کو معلوم ہوگا کہ اب وفدِ خلافت ہندوستان واپس آرہا ہے ہم لوگ یکم ستمبر کو لندن سے روانہ ہوں گے اور ۱۰ ستمبر کووینس میں جہاز پر سوار ہوں گے، آغٖاز سفر سے اس وقت تک میں نے خدمت مبارک میں متعدد خطوط لکھے جن میں سفر کے مقاصد اور وفد کی کوششوں کے نتائج مندرج تھے۔ وفدِ خلافت کا کوئی رکن خود اپنے منہ سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔
[1] ہمدم لکھنو ستمبر ۱۹۲۰ء میں یہ خط چھہا ۱۲