کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 184
وہ ہم سے ناراض ہوکر اٹھے، و ہ کہتے تھے کہ ”اگر انگریزوں سے کہہ کرتم ہم کو بچالو تو ہم پورے ایران کو بچاسکتے ہیں۔ “ ہم نے کہا”اگر انگریز ہمارا کہنااس طرح سُن لیا کرتے تو ہم سب سے پہلے ٹرکی کو نہ بچاتے؟“ آپ کو یہ سُن کر تعجب ہو گا کہ اکثر ملکوں کے مسلمان اپنے تمام معاملات میں ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنا امام سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ان کی نجات ہمارے ہی ہاتھوں سے ہوسکتی ہے۔ لیکن آہ کہ ان سے کیوں کر کہوں، عالم ہمہ افسانۂ ماعواردوماہیج اس ہفتہ کے بعد شاید ایک آدھ خط اور لکھ سکوں، آپ کا جواب تواب بمبئی خلافت کے دفتر میں مل سکتا ہے۔ والسّلام ۶۷ لندن ۲۵ اگست ۱۹۲۰ء عزیزم سلمہٗ تمہار اخط ملا، خوشی ہوئی کہ رنگون اپنے حوصلے کے مطابق اس مسئلہ خلافت میں کام لے رہاہے۔ اب مسلمانوں کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ کچھ دنوں کے شوروغوغا کے بعد وہ محوِ خواب شیریں ہوجائیں۔ اب ان کو اس وقت تک سونا حرام ہے۔ جب تک موت کا سکون ان کو آخری نیند نہ سُلادے۔ آپ لوگ باسفورس کے ساحل پر بوڑھے اسلام کا مرقد دیکھ رہے ہیں۔ اور میں دنیا کے پہنائے ارض میں نوجوان اسلام کا گہوارہ دیکھ رہاہوں، ا ور اشارہ سے بتاتاہوں کہ اوروں کو بھی نظر آئے۔ پورے کے شش ماہہ تجربہ اور مسلمانان ِ عالم سے مبادلۂ خیالات کے بعد مجھے نظر آتا ہے کہ ہمارے لیے کام کے تین طریقے ہیں۔ ۱) اتحاد اسلامی، ۲)اتحاد مشرقی ۳) پہلاا ور دوسرا طریقہ وہ ہے جن کا یورپ اپنی قوت بھر سخت سے