کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 182
کا کوئی فوری اثر پڑنے والا نہیں ہے۔ اس لیے میں نے یہ مشورہ دیا کہ ہم میں سے صرف دو آدمی امریکہ اور ایک دومہینہ کے لیے ہوآئیں یعنی سید حسین اور محمد علی صاحب، بقیہ ارکان فقیرسید سلیمان، آنریبل ابوالقاسم اور شیخ مشیر حسین صاحب کو ہندوستان واپس جانا چاہیے۔ اصل کا م ہندوستان میں ہے۔ اگر ان چھ سات مہینوں کی دوڑ دھوپ اور شہر شہر کوچہ گردی کا کوئی مفید تجربہ مجھے حاصل ہوا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ”دنیا کی آزادی ہندوستان کی آزادی “پر موقوف ہے۔ خلافت عراق، شام، ٹرکی، عرب سب کا مقصد صرف ہندوستان کا مقصد پورا ہونے سے تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ اس دفعہ پیرس میں آذر بائیجان کے ایک ممبر ( مفتی زادوف ) سے ملاقات ہوئی۔ فارسی عمدہ اور صاف بولتے تھے، ان سے کچھ حالات معلوم ہوئے۔ موجودہ آذر بائیجان میں ۵۰ لاکھ کی آبادی ہے۔ جمہوریہ نے دو برس میں نہایت کامیابی سے اپنے فرائض انجام دیے۔ پچاس ہزار فوج بھی تیار کرلی۔ تعلیم پہلے بھی وہاں تھی۔ ا ور اب اور زیادہ ترقی ہوئی۔ اخبارات، مطابع، انجمنیں، مدارس، لڑکیوں کے اسکول سب قائم ہیں، لیکن سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہیں۔ جس طرح ہر جگہ سیاسی فرقہ آرائیاں ہیں وہاں بھی چند پولیٹیکل پارٹیاں ہیں۔ ایک ”فرقہ مساوات“ ہے اور دوسرا ”فرقہ ایجاد“ ایک یہ چاہتا ہے کہ روسی بالشویت کے زیر سایہ انہی کے اصول پر حکومت کرے۔ دوسراچاہتا ہے کہ اتحادیوں پر بھروسہ کیا جائے اورروس سے الگ ہوکر انگریزوں کی اعانت کی پناہ ڈھونڈھی جائے۔ آذر بائیجان کا محل وقوع ایسا ہے کہ وہ ہر حیثیت سے نہایت اہم ہے۔ یہی بیچ کا وہ نقطہ ہے جہاں ایران، ٹرکی و روس سب آکر ملتے ہیں۔ اس کے یہاں تیل کے چشمے دوست و دشمن سب کی نظروں میں عزیز ہیں۔ اس لیے روس اور اتحادی دونوں اس کی تاک میں ہیں۔ آذر بائیجان گویا اس وقت دوقوتوں کی کشمکش میں ہے