کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 181
۶۶؀ لندن ۱۹ اگست ۱۹۲۰ء عمّ ِ مکرم، ا لسلام علیکم ! پچھلے ہفتہ حاضر نہ ہوسکا کہ عین اسی دن پیرس سے لندن تک کا سفر تھا مگر آپ کو بدگمانی ہوگی کہ چونکہ ”مرکز التفات “ دینہ سے ہٹ چکاہے۔ اس لیے ادھر توجہ نہ رہی۔ جناب والااس تماشا زار میں جہاں نظر والتفات کے اتنے مرکوز برسرراہ ہیں، اگر میرا ایک ”مرکز التفات “بدل نہ سکا تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ دیرانۂ ہند میں ایک چند ماہہ محبت، ا یک دائمہ ودیرینہ زنجیر تعلق کو کبھی شکستہ کرسکتی ہے ؟ ہمہ شہر پُر خوباں منم وخیال ماہے چہ کنم چشم بدبیں نہ کند بہ کس نگاہے بہرحال اس بدگمانی کے دفتر کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہی کئے دیتا ہوں۔ یعنی اس خاکدانِ یورپ کو چھوڑ کر اب کشور ِ ہندوستان کی راہ لیتا ہوں۔ ؏ بشر خودروم وشہر یار خودباشم ۱۰ ستمبر سے وینس سے کروکوبیاجہاز روانہ ہوگا۔ ا سی پر نشستوں کا بندوبست کیا گیا ہے۔ پہلے تو یہ طے تھا کہ پورا وفد ہندوستان کو مراجعت کرے گا لیکن چند روز ہوئے کہ سنٹرل خلافت کمیٹی کا تار آیا کہ مولانا عبدالباری، مہاتما گاندھی، سیٹھ چھوٹانی اور دوسرے احباب کی رائے ہے کہ ایک مہینہ کے لیے امریکہ بھی جانا چاہیے، لیکن ارکان وفد میں اس سفر کے مفید ہونے میں اختلاف ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اب تک امریکہ میں مسلمانوں کی خواہش اور ان کے صحیح ومتفقانہ مطالبہ کی تفصیل نہیں کی گئی۔ جو کچھ وہاں کے لوگوں کو معلوم ہوا وہ ہماری زبان وقلم سے نہیں بلکہ دشمنوں کے۔ ا ور ظاہر ہے کہ اس سینما کو انہوں نے کس حد تک نامنصفانہ بلکہ وحشیانہ کرکے دکھایا ہوگا۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ٹرکی کے موجودہ معاملہ پر اس سفر