کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 180
کی زبان سے جوش کے جوفقرے نکل رہے تھے وہ ہندوستان کے جوانوں کے منہ سے بھی نہیں نکل سکتے، میرے قریب ایک بڈھا کھڑا تھا۔ اس نے پوچھا کہ تم یہاں کیسے آئے ؟ کیا تم کو بھی آئرلینڈ سے تعلق ہے ؟ میں نے کہا آئرلینڈ سے نہیں، برٹش امپائر سے تعلق ہے ا س نے کہا برٹش امپائر، برٹش امپائر ! اس کا وجود بھی کہیں ہے ؟ دوسرے نے پوچھا کہ تمہارے ہندوستان میں بھی کبھی یہ جلوے نظر آتے ہیں ؟ میں نے کہا اکثر مگر دل میں کہا کہ میں جھوٹ تو نہیں بول رہا ہوں۔ مزے کی بات یہ تھی کہ ایک ریزولیوشن تھاجس میں حکومت کے اس طرز ِ سیاست پر اعتراض تھا۔ مجمع کے اندر سے ہمارے ایک ہندوستانی بھائی نے خود بخود کھڑے ہوکر ہندوستان کی طرف سے تائید کردی مجمع نے بڑی خوشی سےاس دخل درمعقولات کا استقبال کیا اور چیئرزدیے۔ آخر میں ایک صاحب نے میرے لباس کو تعجب کی نگاہ سے دیکھ کر پوچھا کہ کہاں سے آتے ہو؟ میں نے کہا غلاموں کے ملک سے ! اُس نے کہا ہندوستان ! میں نے دل میں کہا کہ اللہ اکبر! ہمارا وطن اپنی غلامی میں اس قدر شہرہ آفاق ہے کہ لوگ اس کی حقیقت کو اس مجاز کے پردہ میں بھی سمجھ جاتے ہیں۔ ایک اور نے پوچھا کہ ہندوستان میں بھی ایسے جلسے ہوتے ہیں ؟ میں نے کہا اگر نہیں ہوتے تو کل ہوں گے۔ ایک مقررنے لندن کی دولت وحشمت سے معمورتجارت خانوں اور ایوانوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ دولت جولندن میں نہیں سماسکتی کہاں سے آئی ہے ؟ پھر خود ہی جواب دیا، آئر لینڈ، مصر اور ہندوستان کے فقیروں کی جھولیوں سے!ویشی سے علاج کراکر آیا ہوں۔ مگر تندرستی حاصل نہیں ہوئی۔ اب ہندہی میں ہوگا۔ قصہ ٔ زمیں برسر زمیں۔ والسّلام