کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 177
نائیجریا ( افریقہ ) کی ایک مسلمان ریاست لووا کے امیر کے ساتھ ہیں۔ امیر موصوف مہینوں سے انگلستان میں مقیم ہیں۔ عید کی نماز میں ووکنگ میں ان سے نیاز حاصل ہوا تھا۔ سادہ عربی لباس تھا۔ یعنی لمبا کرتہ اور صدری، سر پر مخرد علی شکل کی ٹوپی جس پر رومن خط ”لووا“سامنے لکھا ہوا، پیچھے پیچھے ایک حبشی خادم ایک بوقلمدان یعنی سات آٹھ رنگ کے کپڑوں کی چھتری لگائے ہوئے ساتھ تھا۔ عجیب سماں تھا، یہ تمام علاقہ برطانیہ کے زیر حکومت ہے۔ کسی مسجد یا کسی اور مذہبی معاملہ کی نزاع ہے جس کو یہاں کے پریوی کونسل میں پیش کرنے کے لیے امیر صاحب یہاں آئے ہیں۔ آج ایک مصوّر پرچہ میں ان کی تصویر دیکھی کہ بادشاہ سے مصافحہ کررہے ہیں۔ اور خوشی سے ان کی باچھیں کھلی جاتی ہیں۔
سُنا ہوگا کہ قسطنطنیہ سے ایک جماعت نے آکر طوعاً ً یا کرہاً صلح کے معاہدہ پر دستخط کردیے لیکن اس دستخط کا اثر نہ تو وطنی ترکوں پر پڑسکتا ہے اور نہ مسلمانوں کی عام مذہبی مسائل اور ارادوں پر۔ موسیو ملران کی ملاقات کا حال جناب مولانا عبدالباری صاحب کے سِوا میں نے کسی اور کونہیں لکھا۔ جو کچھ انہوں نے کہا وہ ایک سکھائی ہوئی تقریر کا آموختہ تھا۔ میرا تو یہ حال تھا کہ مترجم نے جب ان کے جواب کا ترجمہ سُنایا تو چہرہ تمتما گیا اور میں اس اثر کو روک نہ سکا، و زیر موصوف بھی کنکھیوں سے ہم لوگوں کو دیکھ رہے تھے، ہماری طرف سے آخری فقرہ یہ کہا گیا کہ اتحادی جو چاہیں فیصلہ کرلیں۔ لیکن جہاں تک ہم مسلمانوں کا تعلق ہے قسطنطنیہ سے کسی ترک کا آکر دستخط کرجانا تاریخ کے باب کوبند نہیں کرتا، ہمارے لیے یہ موقع یاس وناامیدی کا نہیں بلکہ مزید استقلال وثبات قدم کے ساتھ کام کرنے کا ہے۔
حدی راتلخ تر بر خواں چوذوقِ نغمہ کم یابی