کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 176
اورسب سے آخری فقرہ انہوں نے یہ کہا کہ ”گو قسطنطنیہ سے بعض اشخاص صلح کے معاہدہ پر دستخط کرسکتے ہیں مگر جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تاریخ کا یہ باب اس پر ختم نہیں ہوسکتا۔ “ یہ آخری فقرہ تھا جو دروازہ پر ادا ہوا۔ اور وزیر موصوف نے رُخصتانہ مصافحہ کر کے وداع کیا۔ دُنیا منتظر ہے کہ مسلمان کس ثبات اور استحکام کےساتھ اپنے الفاظ و دعاوی پر قائم رہتے ہیں، ٹرکی کا یہ معاہدہ وحی آسمانی نہیں بدل نہ سکے، صرف استقلال اور صبر علی الحق درکار ہے رَبَّنَاثَبِّتْ أَقْدَامَنَا، ۶۵؀ لندن ۱۸ /اگست۱۹۲۰ء برادرعزیز! پچھلے ہفتہ آپ کو یاد نہ کرسکا۔ آپ کو شکایت اور مجھے افسوس ہے۔ بات یہ ہے کہ عین جمعرات کے یعنی ڈاک کے دن پیرس سے لندن آنا ہوا، اس لیے آپ سے گفتگو کا موقع نہ ملا، اب تو ہندوستان کی واپسی کے دن نزدیک آرہے ہیں۔ اگر خلافت کمیٹی کے حکم کے خلاف امریکہ جانا نہ ہوا تو ۱۰ ستمبر کےجہاز سے ہندوستان کا سفر شروع ہوجائے گا۔ مجھے یاد نہیں کہ ندوہ کے نومسلم انگریز محمد[1]بن کر بڑی کی ملاقات کا حال آپ کو پہلے لکھا ہے، یا نہیں، یہ یہاں مجھ سے ملنے کے لیے آئے تھے، آج کل وہ
[1] یہ ایک انگریز تھے جن کو بچپن میں افریقہ کے ایک مسلمان تاجر نے پالا تھا۔ ا ور مسلمان بنایا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد وہ بمبئی چلے آئے تھے۔ اور مولانا شبلی مرحوم ان کو بمبئی سے ندوہ لکھنؤلے آئے تھے، لکھنؤمیں بہت دنوں تک یہ رہے۔ راجہ نوشاد علی خاں مرحوم وغیرہ سے ان کو بہت ملی۔