کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 175
یہ کہتے ہوئے انہوں نے رخصت کرنے کے آثار ظاہر کئے، محمد علی صاحب نے کہا کہ ہمارا مذہب تمام ترمصالح وحکم پر مبنی ہے۔ اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہم جزیرۃ العرب سے متعلق اس کے احکام کی مصلحتوں کو بہ تفصیل عرض کرسکتے ہیں م بشرطیکہ وزرائے سیاست کو ان کے سننے کی فرصت حاصل ہو۔ مترجم فرنچ سے انگریزی میں اور انگریزی سے فرنچ میں ترجمہ کررہا تھا، مگر حالت یہ تھی کہ خود مترجم جو ایک مصنف مزاج فرنچ تھا وزیر فرانس کی زبان سے یہ خیالات سُن سُن کر خود بخود خجل اور شرمندہ ہورہا تھا، جس کا بعد کو اس نے خود اظہار کیا، سید حسین صاحب نے کہا”عام طور سے مشہور ہے کہ قسطنطنیہ کی حیثیت ایک انگریزی مقبوضہ کی ہوجائے گی۔ وزیر صاحب نے جواب میں کہا کہ یہ قطعاً غلط ہے، فرانس کے حقوق بھی وہاں مساوی ہیں بلکہ زیادہ ہیں۔ “ لیکن وزیر موصوف نے یہ نہیں بتایا کہ اسلامی حقوق کا عنصر وہاں کس قدر رہے گا جس کے باقی رکھنے کا احسان حکومت برطانیہ کی وزارت خارجہ اپنی ہندوستانی مسلمان رعایا کی گردن پر رکھنا چاہتی ہے۔ اور جس کا اعلان بہ بانگِ دہل ہر چہار دانگ عالم میں کیا جارہا ہے کہ صرف مسلمانانِ ہند کی خوشنودی اور مراعات کے لیے ترکوں کو قسطنطنیہ میں رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس اجازت کی حقیقت فرانس کے وزیر اعظم کی زبان سے سُن لیجیے۔ بہرحال اُٹھتے اُٹھتے اور دروازہ کھولتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ ”ترکوں کی حکومت کا حال آرمینیوں سے دریافت کرو، “ محمد علی صاحب نے کہا کہ اس بحث مباحثہ قال اقول سے فائدہ نہیں۔ گو ہم تہدید کے لیے یورپ نہیں آئے بلکہ صلح اور مصالحت کے لیے آئے ہیں لیکن فرانس کے حق میں بے وفائی ہوگی اگر ہم یہ نہ ظاہر کردیں کہ اس طرز سیاست سےفرانس ہمیشہ کے لیے غیر محبوب اور بدنام ہوجائے گا۔ “