کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 174
موسیو ملران نے وفد سے ملاقات کی مقرر کی تھی۔ ہم لوگ تو وقت موعودہ پر فرانس کے وزارت خانےمیں گئے، ۱۰ یا ۱۵ منٹ کے انتظار کے بعد وزیر موصوف نے وفد طلب کیا، رسم ملاقات کے بعد محمد علی صاحب نے وفد کے مطالبات واغراض پیش کئے۔ ہندوستان کی موجودہ کیفیت بیان کی، ا سلام کے مذہبی فرائض کا ذکر کیا، مسئلہ خلافت اور عراق وشام و عرب وغیرہ بلادِ مقدسہ کی اہمیت ظاہر کی۔ ا ور کہا کہ مسلمان کبھی اور کسی حیثیت سے بھی اپنےمطالبات سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ وزیر موصوف نے ایک رٹے ہوئے سبق کی طرح اپنے ایک ہم پیشہ نامور وزیراعظم [1] کےخیالات کی اپنی زبان میں ترجمانی کی اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ سیاسی پیغمبر کسی مصنوعی جبرئیل (لائیڈجارج ) کے تعلیمی سبق کو اپنے الفاظ میں ادا کررہا ہے اس وقت میں اپنے تخیل کے کانوں سے حافظ شیراز کی یہ صدائے غیب سُن رہا تھا؎ درپس آئینہ طوطی صفتم داشتہ اند آنچہ اُستادِ ازل گفت ہماں میگویم موسیو ملیران نے ا س مشہور اندازِ عبارت میں جس کے لفظ لفظ کے معنی سے ہم مشرقی بخوبی واقف ہوچکے ہیں۔ فرمایا کہ ”ہم کو مسلمانوں سے عداوت نہیں۔ ا ور نہ اسلام سے پُرخاش ہے ترکوں نے اپنی عیسائی رعایا پر جو مظالم روا رکھے ہیں ان کا ہمیشہ کے لیے انسداد ہمار افرض ہے، ہم کو ملک شام، حکومت کی حرص وطمع سے نہیں، بلکہ جنگی اسباب سے جانا پڑا ہے اور جیسے ہی شام کے تخلیہ کے مناسب اسباب نظر آئیں گے ہم اس کو خالی کردیں گے۔ “ یہ بھی فرمایا کہ ”یہ آپ کے مذہبی جذبات ہیں لیکن جذبات کومصالحِ عقلی کے مطابق ہونا چاہیے اور
[1] مراد برطانوی وزیر اعظم لائڈ جارج سے ہے ۱۲