کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 171
مصر، طرابؔلس المغرب، تھریس، غرض ہر بڑے شہر میں مہاجرین اسلام کی ایک نو آبادی قائم ہے۔ رومہ میں جو اٹلی کا پایۂ تخت ہے بہت سے مہاجر پناہ گیر ہیں، ان سب سے ملنے کا موقع ملا، یہ سب کے سب نہایت روشن خیال، بیدار مغز، اور واقعات کو اصلی رنگ میں سمجھنے والے ہیں، اور چونکہ ہم لوگوں کے بہ نسبت وہ اپنے اپنے ملک سے زیادہ قریب ہیں اور ان کے وسائل مدورفت وسیع تر ہیں، اس وجہ سے وہ ہر معاملہ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کے بیانات سے نہ صرف یہ کہ نئے حالات کا انکشاف ہوا بلکہ بعض اوقات توقع سے بڑھ کر صورت حال تسکین دہ معلوم ہوئی۔ ان کی گفتگو کے لفظ لفظ سے اسلام کا جوش نمایاں تھا۔
اٹلی کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے بھی ملاقات کا موقع بخشا۔ ا وردیر تک خوب گفتگو ہوتی رہی۔ انہوں نے بیان کیا کہ اٹلی کو مسلمانوں سے کوئی پُرخاش نہیں، بلکہ ان حالات میں ان کے ساتھ ہمدردی ہے اور جو جائز مدد اس سے ممکن ہے وہ اس سے دریغ نہ کرے گی۔ چنانچہ البانیہ کے معاملے میں اٹلی نے تقریباً تمام البانوی مطالبات تسلیم کرلئے اور طرابلس کو بھی وہ قطعی خود مختار کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے امید دلائی کہ گو اس وقت بظاہر اسلام ایک عظیم الشان مصیبت میں گرفتار ہے لیکن انشاء اللہ بہت جلد حالات کی صورت بدل جائے گی۔ اور جہاں تک اٹلی کا تعلق ہے وہ مسلمانوں کو شکایت کا موقع نہ دے گی۔
۲۸/جولائی کو محمد علی صاحب نے پاپا ئے روم سے ملاقات کی۔ پایا نہایت تپاک ومحبّت سے ملے اور نہایت صاف وصریح لہجہ میں گفتگو کی، فرمایا کہ زمانۂ حال کے صلح نامے سے ہرگز دنیا میں امن وسلامتی قائم نہیں ہوسکتی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جنگ کی موجودہ صورت اسلام اور عیسائیت کے درمیان نہیں بلکہ مذہب اور لامذہب کے درمیان ہے، انہوں نے اعتراف کیا کہ