کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 17
سوال تھا، سو وہ ان کو عمربھر حاصل نہیں ہوئی اور میرا دل بھی اُن کی وفات کےبعد افسردہ ساہوگیااور اس لیے مجموعہ زاویۂ اہمال میں پڑگیا۔
احباب کا اصرار، تاہم یہ قلمی مسوّدہ احباب کی نظروں سے گزرتا رہا، ا ور جس نے دیکھا اس کے چھپوانے کی فرمائش کی، خصوصاً فرزند عزیزم سیّدا بوعاصم ایم‘ اے(ایل ایل بی (علیگ ) ایڈوکیٹ نے سب سے زیادہ اصرار کیا، لیکن کاموں کے تسلسل اور اوقات کے تواتر نے اس فرمائش کی تعمیل کا موقع نہیں دیا۔ اب یک بیک جب میر اکراچی آنا ہواتو یہ مسودہ جوعزیزموصوف کے ساتھ مجھ سے پہلے کراچی پہنچ چکاتھا میرے ہاتھ آیا اور یہاں کی بیکاری کی فراغت میں جواخیر عُمر کا صلہ ہے اس کو دوبارہ پڑھ کر کہیں کہیں لفظی اصلاح کی اور حاشیہ میں بعض اشاروں کی تصریح اور بعض واقعات اوراشخاص کی تشریح کردی اور بسم اللہ کرکے اس کوچھپنے کےلیے مطبع کے حوالے کردیا،
مکتوب الیہم، اس مجموعے میں جن کے نام کے خطوط شامل ہیں وہ حسب ذیل اشخاص ہیں :۔
۱۔ مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلی،
۲۔ مولانا مسعود علی صاحب ندوی مہتمم دارالمصنّفین اعظم گڑھ، جومیرے عمر بھر کے کاموں میں میرے رفیق خاص رہے اور جویوپی میں تحریک خلافت کے سب سے بڑے عملی کارکن تھے۔
۳۔ مولانا عبدالماجد صاحب دریا آبادی، ایڈیٹر، صدقؔ لکھنؤ، ا ن کے نام کے خطوط پڑھتے وقت یہ ذہن نشین رہے کہ موصوف اس وقت فلسفہ ٔ جذبات ونفسیات واجتماع کے جادو سے نکل کر امن عالم کے علم بزدار تھے اور اس جماعت