کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 168
صاحب بھرتی ہوکر عراق گئے تھے اور بغداد کی جنگ میں شریک تھے وہاں ان کو یہ لال ٹوپی نظر آئی تھی اب انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ جن کے سر پر لال ٹوپی ہو۔ فہوالبغدادی۔ جس دن ویشی کے اسٹیشن پر اُترا، ایک صاحب میرے پاس سے گزرے پوچھا”ترکی“ میں نے کہا نہیں۔ پھر کہا”عربی“ میں نے کہا نہیں ”ہندی“ ولایت کے جو انگریز مصر میں رہے ہیں اور کچھ عربی جانتے ہیں وہ تو ضرور راستے میں دیکھ کر بچھڑے ہوئے دوست کی طرح سلام کرتے ہیں اور عربی بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دو تین مہینے ہوئے کہ مجھے ڈاکخانہ سے کچھ روپئے لینا تھا۔ ڈاکخانہ کا راستہ نہیں ملتا تھا۔ اتنے میں ایک صاحب میرے سامنے سے گزرے اور سلام کیا، اور پوچھا ”مصر“ ؟ میں نے کہا نہیں ”ہندی“ انہوں نے کہا میں سمجھا کہ آج کل مصر کا وفد آیا ہوا ہے تم ان میں سے ہو۔ میں نے کہا نہیں۔ بولے کہ میں مصر میں بہت دن نوکر رہاہوں، ا ور اس عربی دانی کی محبت سے بیچارہ نے یہ محنت گوارا کی کہ پوچھ پاچھ کر مجھے ڈاک خانہ تک پہنچادیا۔ اور ایک ریسٹوران کے پاس پہنچ کر قہوہ کی دعوت بھی کرنی چاہی۔ لیکن آج ۴ بجے کا واقعہ سب سے زیادہ اثر انگیز تھا۔ ایک نہایت بوڑھی عورت، غایت آرزو اور تمنا کی صورت میں میرے سامنے آئی ایک اور ادھیڑ سن کی عورت اس کے ساتھ تھی۔ میری طرف دیکھ کر فرنچ زبان میں کچھ کہنے لگی۔ میں سمجھ نہ سکا۔ ایک الجزائری عرب جو فرنچ جانتے تھے میرے پاس کھڑے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا کہتی ہے؟ انہوں نے ترجمہ کرکے بتایا تو دل میں ایک چوٹ سی لگی اور اس کے حال پر رحم آیا اس نےکہا کہ میرا لڑکا درِدانیال کی جنگ میں گیلی پولی میں مارا گیا ہے۔ میں تم کو ایک ترک سمجھ کر آئی تھی کہ اگر اس کی مزید تفصیل معلوم ہوتو مجھے بتاؤ۔ “ ہندی مسافر اس محبت مادری میں دیوانی بڑھیا کی وجہ تسلّی نہ ہوسکا۔ دونوں آنکھوں میں