کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 167
میں مسلمان ہمیشہ دوسروں پر بھروسہ رکھنے کے عادی ہیں۔ حالانکہ انسان کو ہمیشہ اپنے قوت ِ بازو پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ میں دیکھ رہاہوں کہ آج کل کی تحریکات میں ہند و مسلم اتحاد کا مسلمانوں پر یہ اثر ہورہا ہے کہ وہ ہر کام میں ہندوؤں پر بھروسہ گرکھنا چاہتے ہیں یقیناً ہم کو بحیثیت ہم وطن ہونے کے ان پر اعتماد رکھنا چاہیے مگر اس کے معنی یہ نہیں کہ ہم اپنا سارا بار ان پر ڈال دیں ہم ہی میں خاک پاکِ شیرازکا وہ جوانمر د بھی تھا۔ جو کہہ گیا؎ رفتن بپائے مردئ ہمسایہ در بہشت حقّا کہ باعقوبتِ دوزخ برابر اسّت میری لال ٹوپی بھی ولایت میں عجائب المخلوقات میں سے ہے۔ انگلینڈ میں تو جدھر نکلتا ہوں تماشا بن جاتا ہوں کیونکہ وہاں لال ٹوپی ا ور نیچی شیروانی کسی نے کاہے کو دیکھی ہوگی۔ مشرقی مسلمان اقوام سے انگلینڈ آنے والے صرف ہندوستانی مسلمان ہیں، وہ بمبئی ہی سے ”صاحب“ بن کر روانہ ہوتے ہیں اور اکثر تو گھر ہی میں ”دیسی صاحب “بن لیتے ہیں۔ تب ولایتی صاحب بن کر آتے ہیں۔ فرانس میں ٹرکی، مصر، ٹیونس، الجیریا اور مراکش کے مسلمان تو وہی جبہ و دستار میں لمبی لمبی آستینوں کے ساتھ رنگ برنگ کی عباؤں میں نظر آتے ہیں۔ ٹرکی ومصر کے مسلمان تو کوٹ پہنتے ہیں۔ مگر ترکی ٹوپی پہنتے ہیں۔ عرب مسلمان ترکی ٹوپی پر لفّہ باندھتے ہیں اور مراکشی اور جزائری مسلمان ترکی ٹوپی کے اوپر چادر اوڑھ کر اس کو گلے میں لپیٹ لیتے ہیں۔ بہرحال میری لال ٹوپی یہاں نگاہوں کا مرکز ہے۔ لندن سے باہر میں ایک اسٹیشن پراُترا توسڑک پر ایک خاکروب ”صاحب“ جھاڑو دے رہےتھے۔ لال ٹوپی دیکھ کر مُسکرائے، پھر خراماں میری طرف آئے اور پوچھا ’’بغدادی “؟ میں نے کہا نہیں ”ہندی‘‘ معلوم ہوا کہ یہ