کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 166
اور ان کی ہمت افزائی نہ کریں تو انگلستان محبت کا ہاتھ بڑھانے کو تیار ہے۔
اور اگر اس سوال کا یہ مقصد ہے کہ روس انگلینڈ پر حملہ کیوں نہیں کردیتا تو بھی ظاہر ہے کہ نفس انگلینڈ پر تو حملہ کی کوئی صورت نہیں، رہا اس کے مشرقی مقبوضات پر، تو ابھی تو دہقانی روسیوں کو خود اپنا وجود سنبھالنا مشکل ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمیشہ اس کے مقابلے کے لیے داہنے بائیں، آگے پیچھے کوئی نہ کوئی قوت کھڑی کردی جاتی ہے۔
بہرحال مشرقی اقوام خواہ بالشویک روس کی نسبت کوئی رائے رکھتے ہوں۔ لیکن مجھے ان سے نیکی کی کوئی توقع نہیں۔ انقلاب کے آغاز میں ان کی روش بین الاقوامی محبت وہمدردی کیوں نہ ہو، مگر رفتہ رفتہ وہ قومی محبت اور مخصوص روسی عنصریت کی سیاست کی صورت میں بدل جائے گی۔ اور اس وقت انگلستان کو بھی اس سے مخالفت نہیں ہوگی۔ ہندوستان بالشوزم کسی طرح بآسانی قبول نہیں کرسکتا۔ یہ راجاؤں، تعلقہ داروں اور زمینداروں کا ملک ہے اور اس اصول ِ اقتصاد اور نظام ِ مملکت کی رُو سے سب سے پہلےان ہستیوں کو فنا ہوجاناپڑے گا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کوئی آسان کام ہے ؟
پہلی جولائی سے لےکر ۸ جولائی تک جینوا میں تمام یورپ کے سوشیالسٹوں کی بین الاقوامی مجلس تھی۔ میں نے اس کے اکثر ممبروں کی تقریریں پڑھیں ان میں بہت سے سچے دل سے عام بنی نوع انسان کے ہمدرد ہیں۔ ا ور وہ مشرق کو صرف غلامی اور مغرب کو صرف آقائی کے لیے مخصوص نہیں سمجھتے ہیں۔ بلکہ وہ تمام اقوام عالم کی آزادی اور رہائی کے خواستگار ہیں۔ مگر ان کی تعداد کم ہے ورنہ اکثر اور بہ ہئیت مجموعی ان کی نگاہ میں دنیا صرف یورپ تک عبارت ہے۔ ”دُنیا میں کسی قوم کو دوسرے کا غلام نہیں ہونا۔ “ اس کے معنی یہ ہیں کہ ”یورپ“