کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 163
مقاصد بھی خصوصیت کے ساتھ سمجھاتا ہوں کہ امت کی اصلاح ودرستی کے لیے علماء کی فکر وخیال کی اصلاح نہایت ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس حیثیت سے علمائے ہند میں ہر قسم کے نقائص کے تسلیم کرلینے کے بعد ایسے محاسن ہیں جن کا دیگر بلادِاسلامیہ میں فقدان عام ہے۔ جدید تعلیم نے وہاں اُبال کھایا لیکن قدیم تعلیم ابھی مرقدِ راحت میں ہے۔ قدیم وجدید طبقہ کے باہم دست وگریبان ہونے اور منازعہ ومقاتلہ کی جو حالت پہلے ہندوستان میں تھی، افغانستان وبخارا سے لے کر مراکش تک وہی ہے۔ مصر کے جاؔمع الازہر نے اس سال کروٹ لی ہے۔ تیونس کے جامع زیتون نے ابھی چند مہینے گزرے کہ ایک قدم آگے رکھا ہے۔ یعنی وہاں کے چند مدرسین نے طلب دستور کے وفد میں شرکت کی اور تونس کے سامنے دیگر ارباب تعلیم ِ جدید کے دوش بدوش کھڑے ہوکر طلب دستور کا عریضہ پیش کیا۔ لیکن آپ نے سُنا کہ فرنچ گورنمنٹ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ بعض کو تین ماہ کے لیے اور بعض کو چھ مہینے کے لیے درس خدمت سے معطل کردیا۔ بے چارہ شیخ عبدالعزیز ثعالبی ٹیونسی جو پیرس میں حکومت ٹیونس کی اصلاحات کے لیے کوشاں تھے خانہ تلاشی کے بعد چھ روز ہوئے کہ گرفتار کرلیے گئے۔ زمانۂ جنگ سے لے کر اب تک وہاں مارشل لاء جاری ہے چنانچہ ان کو پیرس سے ٹیونس کشاں کشاں لے جایا گیا۔ کہ ان پر مارشل لا چلایا جائے مگر بڑی قوت کے آدمی ہیں۔ یوں بھی خاصا ڈیل ڈول رکھتے ہیں۔ ان کی پیشانی پر بل تک نہیں اور خوشی خوشی اس مصیبت کے اٹھانے کو تیار تھے۔ ان کے رفقاء کار بھی ہراساں نہیں۔ محمد علی صاحب روما جاکر پوپ سے مل آئے۔ آپ نے تار میں پڑھا ہوگا کہ پوپ نے تمام دُنیا ئے اسلام کو مصالحت اور اپنے پیروؤں کی طرف