کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 161
ٹھیک ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے جس طرح کھل کر اعتماد کے ساتھ باتیں کرنی چاہیں کیں، مگر وہ ان کا جواب گول مول پولیٹیکل ٹائپ کے دیتے رہے، تاہم ان سے کئی دفعہ دیر تک صحبتیں رہیں اور ان سے یہ معلوم ہوا کہ جدید تعلیم مراکش میں اشاعت پارہی ہے، لوگ واقعات کی تہ پہنچتے جاتے ہیں، تاہم جو روح میں ڈھونڈہتا تھا، وہ ان میں نہ ملی اور بعد کو جب ان کے عہد ومنصب کی اطلاع ملی تو شکایت جاتی رہی کہ ہمارے ملک میں بھی اس مرتبے کے لوگ اس سے زیادہ گہرے نہیں۔ پھر بھی کاوش رہی۔ چند روز ہوئے کہ ایک لال ٹوپی مع گندمی رنگ کے بڑے جبّہ کے ایک جگہ نظر آئی، پہلے تو ہمت نہ ہوئی پھر جرات کرکے آگے بڑھا اور سلام کیا، میں سچ کہتا ہوں اور صرف خطیبانہ انداز میں یہی ایک خوبی ہوتی تو کافی تھی کہ صدائے السلام علیکم جہاں گوش زد ہوتی ہے، اجنبی سے اجنبی کے اندر اعتماد وثوق کی شان وہ جھلکنے لگتی ہے کہ گویا وہ برسوں کا محرمِ اسرار ہے۔ ان صاحب سے مل کر طبیعت بہت مسرور ہوئی۔ میں نے پوچھا، کیا آپ علماء میں سے ہیں۔ یا تاجر ہیں یامنصب دار ہیں۔ تو جواب دیا کہ ”میں مراکش کے محکمۂ وطنی میں نوکر ہوں۔ ہاں محکمۂ وطنی میں، فرنساوی میں نہیں۔ “ میں نے دل میں یہ کہا کہ آدمی تو کچھ لوچ دار معلوم ہوتا ہے، پھر جو باتیں ہوئیں تو معلوم ہوا کہ میں اس شخص سے باتیں کررہا ہوں جوان اسلامی مسائل پر کامل غور وفکر کرچکا ہے۔ اس نے کہا کہ مراکش میں سپاہی بھی موجود ہیں۔ دولت وسامان کی بھی کمی نہیں۔ صرف ایک قوّت محرکہ اور دستِ عامل اور کارفرما روح کی ضرورت ہے پھر جوش میں آکر اس نے کہا کہ ”ہم کو سپاہی کی کمی نہیں، روپے کی کمی نہیں، ہم میں ایک ”انور“