کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 159
مقبوضہ ٔ افریقہ کے مسلمان ہیں۔ رسوعی اپنا نام بتایا۔ لیکن بات کرنے میں شراب کی بُو بھک بھک مُنہ سے آرہی تھی۔ یہ دیکھ کر مجھے اس سے بات کرنے کی ہمّت نہ ہوئی۔
چند روز کا واقعہ ہے کہ میں چند جزائری عربوں سے باتیں کررہا تھا کہ ایک فرنچ صاحب آکر ان سے دوستانہ ملے۔ پھر میری طرف بڑھے۔ ان لوگوں نے ملایا، مجھ سے فصیح عربی میں گفتگو شروع کی، یہاں تو؏
ہم بھرے بیٹھے تھے کیوں آپ نے چھیڑا ہم کو
ان جزائریوں سے فرانس کے مظالم پر گفتگو ہورہی تھی، صاحب نے میری بیماری کا حال سُن کر مجھ سے کہا عَجّلَ َ اللّٰہ ُ شِفَاءُکَ ( خدا آپ کو جلد شفا دے) میں نے کہا لایھمنی شفاء شخصی مَع شفاء امتی ( مجھے اپنی قوم کی بدبختی کے بعد اپنی ذاتی شفا کی پرواہ نہیں ) بس سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے جرأت وبے باکی سے فرانس کے طریقۂ سیاست اور مسلمانوں کے ساتھ اس کے سلوک کی تنقید کی، ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ سلام کرکے رُخصت ہوئے۔ بعد کو معلوم ہوا کہ یہ الجزائر کے سرکاری گزٹ یا اخبار المبشر کے ایڈیٹر اور وہاں کے نائب والی ہیں۔ ہمارے جزائری بھائیوں نے ہمارے آزادانہ مباحث کو بڑے تعجب کی نگاہ سے دیکھا۔ ا ور میرا تو مقصود بھی یہ تھا کہ ان کو دلیر کروں ایڈیٹر صاحب کا نام موسیو میرانت تھا۔
ہاں بھائی یہ تو پرانی باتیں تھیں، اپنی بات یہ ہےکہ دارالمصنفین کی کتابوں کے لیے ۵۰۰ روپے کی اور ضرورت ہے اورچونکہ ایک ماہ کے اندر روانگی کا بھی قصد ہے۔ اس لیے ان کے اندر بھیجنا چاہیے، اس لیے میں آج کل میں روپیہ کے لیے تار دوں گا، کچھ کتابیں لندن سے بھجوائی ہیں وہ پہنچیں تو رسید لکھیے۔
والسلام