کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 157
یہاں بکثرت آئے ہوئے ہیں۔ ان میں تاجر بھی ہیں۔ سرکاری عہدہ دار بھی ہیں، علماء بھی احساس و ندامت سب کو ہے، لیکن کہتے ہیں کہ ہماری معذوری ومجبوری ظاہر ہے فرانس کی جمہوریت اور آزادی کا فسانہ تو بہت سُناہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ قوم انگریزوں سےبھی زیادہ مستبداور اقتدار پسند ہے۔ عوام کو سلطنت میں کوئی دخل نہیں۔ صرف ارباب ِ جاہ وثروت کے ہاتھوں میں حکومت ہے۔ پہلے یہ سن کر بہت خوشی تھی کہ فرنچ اپنی حکومت کو شہنشاہی وباد شاہی اور نوآباد شہروں کو محکوم اقوام اور دیگر اقوام محکومہ کو انگریزوں کی طرٖح رعایا نہیں کہتے بلکہ اپنی سلطنت کو کومن ویلتھ ( دولت مشترکہ) رعایا کو سیٹیزن ( شہری) کہتے ہیں گویا اس فرانس کے زیر سایہ بسنے والے ایک ملک وشہر کے سب بھائی بھائی ہیں لیکن افسوس کہ یورپ آکر معلوم ہوا کہ ہر لفظ اس کا اصل مفہوم مراد لینا ضروری نہیں جیسے لیگ آف نیشنس ( مجلس اقوام) انڈنپڈنٹ ( استقلال وخود مختاری) مانڈیٹ ( حکمبرداری ) سلف ڈٹر مینشن ( اختیار ذاتی ) وغیرہ الفاظ کےمعنی یورپ میں وہ نہیں سمجھے جاتے ہیں جو ایشیا میں ازروئے لغت سمجھے جاسکتے ہیں۔ فرانس کا حق شہریت فرنچ، ا نڈیا، مراکش ، الجیریا اور ٹیونس وغیرہ کے باشندوں کو آپ جانتے ہیں کب حاصل ہوسکتاہے ؟ جب وہاں کے باشندے فرنچ قانون اختیار کرلیں۔ فرنچ حکومت تسلیم کرنے کےبعد فرنچ قانون اختیار کرنے کے معنی آپ سمجھے؟ یعنی قوانینِ حکومت کے ساتھ نکاح وطلاق وراثت اور دیگر معاملات میں اپنا مذہبی وقومی قانون چھوڑ دیاجائے جس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اسلام یا ہندو دھرم کو خیر باد کہو، تب فرانس کے حق شہریت کی دولتِ عظمیٰ مل سکتی ہے اور تب نوآبادی کا باشندہ ایک فرنچ کے برابر اور مساوی حقوق پاسکتا ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اپنی قومیت وجنسیت چھوڑ کر فرانسیسی قومیت اختیار کرلو۔