کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 153
بحرِ ہند میں ایک جزیرہ ہے جہاں کی شکر بہت مشہور ہے۔ یہ پہلے فرنچ مقبوضہ تھا مگر نپولین کے زمانے میں انگریزوں نے اس کو لے لیا۔ یہاں ہندوستانی بکثرت جاکر آباد ہوگئے ہیں۔ ۳۶میلی کا جزیرہ ہے اور قریب ۳ لاکھ کے آبادی ہے۔ جس میں ایک ثلث سے زیادہ ہندوستانی ہیں اورہندوستانیوں میں ایک ثلث مسلمان ہیں، یہاں کی زبان ایک نئی اُردو ہے جو فرنچ اور انگلش، مدغا سکری اور ہندوستانی سے مرکب ہے۔ وہاں تعلیم فرنچ اور انگریزی دونوں میں ہوتی ہے۔ بہرحال ماریشس کے چار پانچ ہندوستانی طالب علم جن میں ایک مسلمان ہے۔ عبدالغفور جیتو نام۔ یہ لوگ فرانس میں ڈاکٹری پڑھتے ہیں اور وہ اتفاق سے ویشی میں مقیم تھے۔ ایک فرنچ لیڈی جو ہم لوگوں کی ملاقات کے بعد ہندوستانی پالیٹکس میں بہت حصہ لے رہی ہیں۔ و ہ ان ماریشس کے ہندوستانیوں اور ہم ہندوستان کے ہندوستانیوں دونوں سے واقف تھیں۔ انہوں نے میرے ویشی جانے کا حال سُنا۔ تو کہا کہ نہایت مناسب ہے۔ آج کل چند اور ہندوستانی بھی وہاں مقیم ہیں، چنانچہ ان سے خط وکتابت کرکے ویشی آیا اورانہی کے ساتھ ٹھہرا۔ بیچارے یہ لوگ بڑے ملنسار ہیں۔ انہوں نے بڑی محبت اور خاطر داری کا برتاؤ کیا ان کے اجداد ہندوستان چھوڑ کر ماریشس آئے تھے۔ مگر یہ اب تک ہندوستان پر جان دیتے ہیں، ا ور اسی کو اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ ان کی وجہ سے زبان کی مشکلات بالکل حل ہوگئیں لیکن افسوس کہ کل رات وہ یہاں سے چلے گئے۔ ا ور اب میرا زبان داں یہاں کوئی نہیں رہا۔ جس سے بات کی جائے۔ غریب غاؔلب نے اسی دن کے لیے یہ شعر کہہ رکھا تھا؎ بیاوریدگر اینجا بودسخندانے غریب شہر سخنہائے گفتنی دارد لیکن تسلی یہ ہے کہ یہاں الجزائر کے بکثرت عرب آئے ہوئے ہیں جن کی مغربی عربی میرے فہم سے گو عموماً باہر ہے۔ مگر ان میں کے تعلیم یافتہ فصیح عربی بھی بولتے ہیں۔