کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 152
قابل نہ رہیں۔ ورنہ وہ کون سی آزادی ہے جو مغربی اقوام کے تحت مشرقی قوموں کو نصیب ہے۔ یہاں الجیریا کے مسلمانوں سے بکثرت ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ اپنی آزادی کی وہ دردناک کہانی سُناتے ہیں کہ آپ اپنے امن کا فسانہ ان کے سامنے بُھول جائیں۔ اب میرے پانی پیتے کا وقت آگیا۔ اس لیے خط تمام کرتاہوں اور جاکر ”اوپی نال“ چشمہ کا گرم اور شور پانی پیتا ہوں۔ سلام رخصت ۵۹ ویشی ۲/اگست ۱۹۲۰ء پرسان احوال اسلام محبت آج یہاں آئے ہوئے ۱۳ دن اور علاج کیے ۱۱ دن ہوئے ڈاکٹر نے اس اثناء میں تین دفعہ دیکھا۔ و ہ کہتا ہے کہ تم ترقی کررہے ہو۔ لیکن مجھے کچھ اچھا بُرا بھی محسوس نہیں ہوتا۔ اس قدر کافی ہے کہ درد نہیں اٹھا۔ کوئی بیس دن سے آپ لوگوں کا کوئی خط نہیں ملا۔ کیونکہ میری تما م ڈاک لندن کے مستقر(۸ البرٹ ہال مینشن ) میں پڑی ہوگی۔ میں نے منگوائی ہے مگر اب تک آئی نہیں، اس لیے آپ کے خط کی رسید محض غائبانہ حُسن ِ ظن کی بناء پر دیتا ہوں۔ فرانس میں لوگ عموماً انگریزی نہیں جانتے، پیرس کے ہوٹلوں میں ویٹر ( خانساماں ) البتہ جانتے ہیں۔ مگر اس لیے نہیں جانتے کہ وہ انگریزوں کی زبان ہے۔ بلکہ اس لیے کہ وہ ان امریکنوں کی زبان ہے جو لاکھوں کی تعداد میں ہر سال یہاں لطف وعیش وتفریح کے لئے آیا کرتے ہیں۔ اس جنگ کے بعد انہی امریکنوں کے طفیل میں انگریزی نے بھی یورپ کی سیاسی دنیا میں فرنچ کے بعد دوسرے درجہ کی حیثیت حاصل کرلی ہے لیکن ویشی جہاں میں ہوں ایک قصبہ ہے۔ یہاں کے ویٹر انگریزی نہیں جانتے اور میں فرنچ نہیں جانتا۔ اس کی کیسی مشکل ہے۔ کیا عرض کروں لیکن خدا سب کا کارساز ہے۔ اس نے غیب سے ایک سامان پیدا کردیا۔ ماریشس