کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 151
شروع سے آخر تک ہمیشہ معمور رہتی ہے۔ اس کے ایک گوشے میں تھیٹر ہے، دوسرے گوشہ میں ریسٹوران ہے۔ ایک کمرے میں اخبارات ہیں جن کو لوگ پڑھ رہے ہیں۔ اس کے مقابل کے بازؤں کے کمروں میں میز وکرسی اور بیچ میں خط لکھنے کے لیے لفافے، کاغذ اور دوات قلم ہیں۔ اور یہ دونوں کمرے لکھنے والوں سے بھرے ہیں۔ سامنے لائبریری ہے۔ ا ور لائبریری کے سامنے ہی قمار خانہ ہے، جہاں تمام دن فرانس کے شرفاء بیٹھے جُوا کھیلتے رہتے ہیں۔ کھیلنے والوں کے چار وں طرف تماشائی ہیں۔ باغ کی ایک روش پر ”لذت شب “کے سوداگروں کا بازار ہے۔ تماشا خودمحوِ خرام ہے اور تماشائی ذربجیب چکر کاٹ رہے ہیں۔ ایک طرف اور رقص وسرور کاسامان ہے۔ یہ مجموعہ بیرنگی و بوقلمونی اور ایک ہی دسترخوان پر صف بہ صف مختلف الوانِ طعام، فرنچ تمدن کی خصوصیت ہے۔ کیا آپ ہندوستان میں بھی یہی نقشہ چاہتےہیں۔ افسوس کہ میں ”اہل تجربہ“ میں سے نہیں، ورنہ کچھ ”نیچرل میوزیم “ کی ہسٹری بھی سناتا۔ دُور سے دیکھتا ہوں اورسہم جاتا ہوں کہ یورپ کے علم کا سایہ جس زمین پر پڑا وہ اسی رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ فلسطین اور عراق انگریزی برکات کے ظلّ ہمایوں میں، اور ملک شام ”رندلم یزل“فرانس کے زیر سایہ انہیں سعادتوں سے مالا مال ہوگا، اب آپ سُنیں گے کہ بیت المقدس میں، مقام خلیل میں، خانقاہ بغداد میں مدفن ِ بلال میں، موطن حسن بصری میں، مقتل حسین کس قدر قمار خانے، کس قدر قہوہ خانے، کس قدر دارالفواحش قائم ہوئے ہیں، تھیٹروں اور سینماؤں کے لیے عہد حکومت میں یہ چیزیں قانوناً منع تھیں۔ کیونکہ وہ جفاکاروحشی تھے۔ ا ور اب تو آزادی کا دَور دورہ ہے۔ یورپ ہم کو اخلاقی آزادی بخشتا ہے، کیوں ؟ تاکہ ہم سیاسی آزادی کے