کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 150
شرف نیا زحاصل ہوا۔ ۲۰ جولائی کو پیرس کے عجائب خانہ تاریخ طبعی ( میوزیم آف نیچرل ہسٹری) میں ڈاکٹر موصوف کا لیکچر تھا۔ یہ عجائب خانہ ایک وسیع عمارت ہے۔ جس کے اندر نباتات وحجریات کا مجموعۂ عجائبات ہے۔ میں نے اس کو بالکل سرسر ی دیکھا۔ کیونکہ یہ میری دل بستگی کی چیز نہ تھی۔ ڈاکٹروں کا لیکچر طبعاً نباتات کے قوائے احساس پر تھا۔ حاضرین میں فرانسیسیوں کے ساتھ ہندوستانی طلبہ کا مجمع تھا۔ برقی روشنی کا عکس سامنے کی دیوار پر ڈال کر اپنے ایجاد کردہ نازک ولطیف آلات کے ذریعےسے نباتات کی نہایت ہی خفیف حرکت کا نقش دکھارہے تھے۔ مسائل کو سمجھاتے تھے۔ و ہ فرنچ نہیں جانتے۔ انگریزی میں تقریر کررہے تھے، ایک فرنچ پروفیسر ان کو انگریزی تقریر کا لفظی معنی ترجمہ فرنچ میں سُنا جاتا تھا۔ تقریر کے بعد چند پروفیسروں نے موصوف کی تعریف کی، اس کے بعد ہندوستانیوں نے ان کو اسٹیج پر جالیا۔ ا ور وہ اس ہالہ کا چاند بن کر ہمارے درمیان کھڑے ہوگئے۔ ایک دوست نے میرا تعارف کرایا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان مایوس نہ ہوں۔ ترقی امید کے سہارے چلتی ہے۔ پھر کہا کہ میں بھی ایشیا ہی کی خدمت کررہاہوں۔ ا ور بتاتا ہوں کہ ایشیا کا دماغ بھی خدا کے عطیوں سے محروم نہیں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ چند ہندوستانی ادھر بھی تو جہ کریں۔ ڈرتا ہوں کہ میرے یورپ یہ کہے کہ بوس ایک مستثنیٰ ایشیائی تھا۔
پیرس میں مَیں نے عربی کی چند نادار کتابیں دارالمصنفین کے لیے خریدی ہیں۔ اکثر تاریخ وجغرافیہ سے متعلق ہیں۔ ان میں آپ کے کام کی کوئی چیز نہیں۔ یعنی فلسفہ کی کوئی کتاب نہیں۔ ہئیت پر ایک دو کتابیں ملیں۔
جس مقام سے میں آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔ یہ اس شہر کا جو عارضی طور سے موسم آباد ہوجاتا ہے کلب ہے، یہ ایک وسیع باغ وعمارت ہے۔ جس میں مختلف مقامات پر کئی ہزار کُرسیاں پڑی ہیں۔ جس کے ممبر ہی ان پر بیٹھ سکتے ہیں۔ ا ب آپ سنیے کہ یہ تمام کرسیاں