کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 145
رہتے ہیں۔ کٹھروں کے اُدھر پانی پلامنے والیاں کھڑی رہتی ہیں۔ نہانے کے لیے ایک بہت بڑی بلند عالیشان عمارت بنی ہے، جس میں ایک طرف عملہ رہتا ہے۔ دوسری طرف صنف بہ صنف مختلف اقسام ومدارج کے غسل خانے اور حمام مع تمام ضروریات غسل کے بنے ہیں۔ چشمہ کا پانی پائپ کے ذریعہ سے ٹپ میں آکر گرتا ہے۔ ٹپ میں ایک حرارت نما آلہ پڑا رہتا ہے۔ ہر حمام پر ایک آدمی مقرر ہے۔ اس غسل میں مختلف اشخاص کے لیے مختلف طریقہ غسل اور اوقات غسل ہیں۔ میرے لیے یہ ہے کہ ۲۰ منٹ تک حوض میں پڑے رہو۔ حوض ( ٹپ ) کے پاس ہی زنجیر میں گھنٹی لٹکتی ہے۔ وقت پورا ہوا ہاتھ بڑھا کر گھنٹی بجائی۔ فوراً حمامی آگ میں گرم کئے ہوئے دو جبّے لے کر آتا ہے اور اس کو سر سے پاؤں تک ڈال کر پانی خشک کردیتا ہے۔ اب یہ دیکھیے کہ ایک ان چشموں کے خاطر یہاں عظیم الشان کا روبار پھیلا ہوا ہے ہزاروں آدمی باہر سے آتے ہیں ان کے چھوٹے بڑے ہوٹل چاہیے، قہوہ خانے چاہئیں، ا خبارات چاہئیں، لائبریری چاہیے، تھیٹر اور سینما چاہیے، دواخانے چاہئیں، معدہ وجگر کے ماہر ڈاکٹر چاہئیں۔ خصوصاً پانی پینے کے گلاس چاہئیں۔ باغ وچمن چاہیے، یہ تمام چیزیں ان چشموں کی خاطر یہاں موجود ہیں۔ ان کو دیکھ کر مجھے اپنے وطن ( بہار) کا راجگیر یاد آیا، جہاں مختلف امراض کے قدرتی چشمے موجود ہیں۔ مگر ان کے لیے بجز قدرتی سامانوں کے انسانوں کے مصنوعی اسباب راحت کا کوئی شائبہ موجود نہیں، اگر یہ چشمے یورپ میں ہوتے تو یہ صحت جسمانی اور سامان تجارت ودولت کے سرچشمے ہوتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا ملک ہندوستان بھی ایک متمدن یورپین سلطنت کے زیر سایہ ہے۔ کیا یہ سچ ہے ؟ انگلینڈ میں پبلک عراق پر برطانوی قبضہ کے خلاف ہے کہ جو روپیہ عراق کی آراستگی میں صرف ہوگا، وہ انگلینڈ کی ترقی حفظانِ صحت میں صرف ہو۔ کیا ہندوستان کا بھی