کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 143
متواتر سفر ہے۔ صبح کہیں شام کہیں۔ بار بار تبدیل آب وہوا۔ ا ختلاف غذا، شب ِ بیداری، اور دردِ شکم ( یا درد جگر کہیے) کے بار بار حملے سے اس قدر خستہ ہوگیا ہوں اور خصوصاً درد کے آخری حملے نے تو یک گونہ مجھے مایوس کردیا تھا۔ میں نے آپ لوگوں کو قصداً اپنی پوری کیفیت سے آگاہ نہیں کیا کہ اضطراب ہوگا۔ بہرحال یہ حقیر زندگی گو قوم اور ملک وملّت کی ملکیت ہوچکی ہو۔ ا ور شخصی ملکیت سے نکل چکی ہو۔ تاہم ابھی ذات کی محبت اس قدر باقی ہے کہ بآسانی اس کو ہاتھ سے دینے پر نفس راضی نہیں۔
میں یہ لکھ چکا ہوں کہ انگریز ڈاکٹر آپریشن کو کہتے ہیں لیکن فرنچ ڈاکٹروں کی رائے آپریشن کی نہیں۔ و ہ اس کو قابلِ علاج سمجھتے ہیں اوراس کے لیے ویشی کے قیام کامشورہ دیا ہے۔ یہاں کا پانی وہ کہتے ہیں کہ خاص طور پر مفید ہے۔ دعا کیجیے کہ خدا صحت کامل دے اور اس منحوس مرض سے نجات بخشے۔
ترک و عرب کے ہنگاموں سے اب عرب کی آنکھیں کھلی ہیں اور ان کو یورپ کےسیاسی وعدوں کی طفل تسلّی کی حقیقت نظر آتی ہے۔ لیکن اب جب کہ پانی سر سے گزرچکا۔ ویشی میں الجیریا کے بہت سے مسلمان ہیں کل ایک سڑک پر وہ ترکی ٹوپیوں اورعربی جبّوں میں نظر آئے، ملاقات کی جرأت نہ کی۔
کل ریل کا واقعہ سنیے۔ مجھے تو یقین نہیں کہ یورپ آکر دانستہ یا نادانستہ کوئی شے نہ سہی تو شبۂہ حرام سے بچ سکتا ہے۔ یہاں سور کے گوشت کے باریک ٹکڑے کھانوں میں محض خوشبو کے لیے یا محض تبرک کے لیے ڈالے جاتے ہیں۔ ہوٹل میں جاکر خانساماں کو سب سے پہلے یہ فرمائش کرنی پڑی کہ اس شے کا کوئی جُز کسی کھانے میں شامل نہ ہو، میں فرنچ نہیں جانتا۔ ایک فرنچ دوست نے کاغذ پر یہ لکھوالیا کہ یہ چیز کھانے میں نہ ہو۔ جب خانساماں آیا تو یہ کاغذ اس کے حوالہ کیا۔ میں یہاں گوشت بھی نہیں کھاتا، آخر صرف آلو اور انڈے ملے۔ اتفاق سے جو انڈے کو الٹتا ہوں