کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 142
پڑھیے، کعبہ کو چھوڑ کر ہم کو اور کون سا آستانہ مل سکتا ہے۔ ابھی ایک فرنچ مہمان مع میم صاحبہ کے ملاقات کو آگئے۔ اس لیے خط کو مجبوراً ختم کرتا ہوں۔ ۵۵ ویشی ( ملک فرانس، ہوٹل دورہون اینڈ سورے ہوٹل، ۱۲ جولائی ۱۹۱۰ء برادرم سلمہٗ حسب تحریر سابق کل ۲۱ جولائی کو تین ہفتوں کے لیے میں ویشی آیا ہوں۔ یہ معدہ وجگر کے بیماروں کے لیے خاص صحت گاہ ہے۔ گرمی کے تین چار مہینوں میں یہ نہایت آباد رہتا ہے پھر یہاں خاک اُڑتی ہے۔ آج کل یہ بہار پر ہے۔ پیرس سے ساتھ گھنٹوں کی مسافت پر ہے۔ یہاں چند قدرتی معدنی چشمے ہیں جن کا پانی معدہ وجگر کی بیماریوں کے لیے آبِ حیات ہے۔ ان چشموں کو گورنمنٹ نے خوشنما قبول کے سایہ میں کردیا ہے۔ ان پر پتھر کے کنگر ے بنا کر چاروں طرف لگادیے گئے ہیں جن سے پانی نکلتا ہے چاروں طرف لوہے کی تِلیوں کا کٹھرہ ہے جن میں چھوٹی چھوٹی ہزاروں کیلیں جڑی ہیں، ہر کیل میں ایک گلاس لٹکا ہے۔ گلاسوں پر نمبر پڑے ہیں۔ کٹھرے کے نیچے پانی پلانے والیاں کھڑی رہتی ہیں۔ چاروں طرف صبح وشام ہزاروں آدمیوں کا میلہ لگا رہتا ہے۔ پانی شور اور گرم ہے۔ سعدی کہتے ہیں ؎ ہر کجا چشمۂ بودشیریں مردم ومور ومرغ گِرد آبند مگر یہاں چشمہ ہائے شور کے گرد مردم ومورو مرغ کا مجمع ہے۔ البتہ ان شور چشمیوں کی تقریب سے ”زندہ اور رواں شیریں چشمے “ہر جگہ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ فَتَبَارَكَ اللّٰـهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ۔ مسافروں کےا س عارضی شہر میں دماغی، علمی، تفریح گاہ سے کر جسمانی عیش وعشرت گاہ تک پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں اور یہی فرانسیسی تمدن کے خصائِص ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہندوستان میں ہر سفر کے بعد میرا بیمار پڑنا ضرور تھا۔ یہاں