کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 140
انگریزی اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئی ہیں، ا ب کل کے اخبارات میں ہاؤس آف کامنس کی رپورٹ شائع ہوئی۔ جس میں خلافت کی تحریک کو بزور دبانے، مسٹر گاندھی کی آزادی محدود کرنے، چھوٹانی اور دیگر کارکنان خلافت کو ڈرانے کی تقریریں اور سوالات وجوابات ہوئے۔ مانٹیگو صاحب نےفرمایا کہ ان باتوں کو حکومت برطانیہ کے ان ارکان پر جو ہندوستان میں امن قائم رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ چھوڑتا ہوں۔ ریوٹر کے تاروں میں شاید یہ خبر آپ کو پہلے ہی مِل چکی ہوگی۔ اس ہفتہ ٹیونس، مصر، سام اور عراق کے اربابِ فہم وعقل سے ملاقات ہوئی اور طبیعت خوش ہوئی۔ وَالسَّکُوتُ تَارَۃً اَفْصَحُ مِنَ النُّطْقِ۔ حجاز کے عرب وفد سے اس دفعہ پھر ملنے گیا، چونکہ ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میں عربوں کی طرف سے سخت غصہ ہے، اس لیے ناممکن ہے کہ پہلی ملاقات میں کوئی غیور مسلمان اپنی گفتگو میں اعتدال قائم رکھ سکے۔ خود میرا پہلی ملاقات میں یہی حال ہوا تھا۔ لیکن بعد کو خیال ہوا کہ اب اس سے کیا فائدہ ہے۔ ا ب تو بھلائی اسی میں ہے کہ اخلاص ومحبت کے ساتھ معاملات کے عواقب ونتائج سے انہیں خبردار کیا جائے، چنانچہ بعد کوان سے یہی وتیرہ اختیار کیا۔ جناب شیخ مشیر حسین صاحب قدوائی، سالہا سال کے غم وغصہ کھانے کے بعد ابھی پہلی دفعہ ہم لوگوں کے ساتھ ان سے جاکر ملے۔ بس جاتے ہی برس پڑے، بڑی کوشش سے ان کو روکا مگر وہ کسی طرح نہ رُکے۔ دوگھنٹے تک بحث رہی وہ اسباب ومصالح اور وجوہ بیان کرتے رہے۔ ا ور یہ اعتراضات کرتے تھے، مجھ سےبدگمان نہ ہوجیئے گا، اگر میں یہ کہوں کہ اب مجھے عربوں سے ہمدردی ہوچلی ہے۔ ٹرکی کا معاملہ اس خط کے پہنچنے سے پہلے سردمہر ہوچکے گا۔ تاہم اس وقت کی پوزیشن یہ ہے کہ اناطولیہ کے ترک جواب قوم ومملکت ہیں۔ ان شرائط کی تسلیم