کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 138
مجھے یہ خوشی ہوئی کہ آپ کو قرآن مجید کے کسی نوع کے معجزہ ہونے کا یقین تو آیا آپ کو اگر میرے قرآنی استدلال سے تسکین نہیں ہوئی تو مجھے بھی آپ کے فلسفیانہ استشہاد سے تسلی نہیں ہوئی۔ آپ فرماتے ہیں کہ ”تم انگریز کوبُرا کہتے ہو اور میں انگریزیت کو، تم شیطان کو لعنت کرتے ہو میں شیطنت کو۔ یہ تفریق میری سمجھ میں نہیں آئی۔ انگریز میں اگر انگریزیت اور شیطان میں اگر شیطنت نہ ہوتو اس کو کیوں بُرا کہے۔ شیطنت نہ ہوتو شیطان ‘شیطان نہیں، مَیں اس وجود کو بُرا کہتا ہوں جو شیطنت سے معمور ہے اور آپ نفس شیطنت کو۔ یہ تو ایک نزاع لفظی ہے۔ میرا کبر حسین صاحب کا فلسفہ اپنی صنعت تضاد میں ممتاز ہے۔ وہ کیا چاہتے ہیں، ا ور کیا کہتے ہیں، میں تو ان کے فلسفہ کے اب معنی یہ سمجھنے لگاہوں کہ ”احوالِ رواں جو کچھ ہوں ان کی مذمت وتنقید “ ہمارے خواجہ حسن نظامی صاحب میں جہاں اور کچھ ہے وہاں ”اخبار بازی“ کا بھی ذوق ہے۔ نظام المشائخ سے لے کر اب تک وہ کسی رسالہ یا اخبار کو زیادہ دن تک نباہ نہ سکے۔ ایک مہینہ ہواان کو میں نے ایک دلچسپ خط لکھا ہے۔ ا نہوں نے اخبار ”رعیت“میں زاغلول پاشا کو عیسائی لکھا تھا، میں نے زاغلول پاشاسے اس لطیفہ کا ذکر کیا۔ وہ دیر تک ہنستے رہے، بھائی وہ مسلمان ہیں اور مفتی عبدہٗ اور ازہر کے شاگرد ہیں۔ ۱۴جولائی فرانس کی عید حرّیت کا دن ہے۔ ا ن کے خیال میں یہ وہ دن ہے جب ”دُنیا‘‘ نے ”عدالت “۔ ’’اَخُوت“مساوات “ پائی۔ وسیع دنیا سے ”مختصر فرانس“ مراد ہے۔ بہرحال پرسوں اور کل یہاں حرّیت کا جشن تھا۔ تمام شہر بُقعۂ نور تھا، عمارتیں جھنڈیوں سے آراستہ تھیں، ہر چوراہے پر باجے بج رہے تھے۔ جس کے چاروں طرف صدرہاانسانی جوڑوں کا پَرا تھا۔ باجہ کے تال سُر پر ایک ایک مردا ور ایک ایک عورت کےپاؤں میں خودبخود جنبش ہونے لگتی تھی، سینہ سے سینہ لگ جاتا تھا۔