کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 133
تھاکہ ”میں شہرت کو جو مجھے بدنصیبی سے حاصل ہوگئی ہے، اپنا دشمن جانتا ہوں میں ایک زاویہ پسند، عزت نشین آدمی تھا، عزّت کی جگہوں سے بھاگتا ہوں، شوروغل کو ناپسند کرتاہوں “ مجھے تو سراسر بناوٹ معلوم ہوتی تھی۔
الف لیلہ اور بوستا ن ِ خیال وغیرہ سلسلہ نادرہ کا کتب تصوّف ہونا کیا مشکل [1]؟ جب ہمارے قدماء گلستاں کو ایک اورعارف نحو کی کتاب کا؟ کو اس سے پہلے اسی سلسلے میں داخل کرچکے ہیں۔ اُن کتابوں میں یہ روحانی کمال ہو یا نہ ہو لیکن ان بزرگوں میں دماغی کمال یقیناً تھا اور اب پھر ثابت ہوجائے گا کہ یہ کمال اس صدی کے بعض بزرگوں میں بھی موجود ہے۔
کل ایک کُتب فروش کی دکان پر گیا تھا اس کی وسعت کو دیکھ کر حیران ہوگیا، برٹش میوزم کے سامنے واقع ہے، ہر موضوع ‘ ہر سبجیکٹ اور ہر مبحث کی کتابوں کا الگ صیغہ اور الگ عملہ تھا۔ مشرقی زبانوں اور کتابوں کا الگ، نقشوں کا الگ، تاریخ کا الگ، غرض ایک ایک علم وفن کا الگ، عمرخیام کی رباعیات کا ایک نسخہ دیکھا۔ جس کے ایک ایک صفحے پر ایک ایک انگریزی ترجمہ کی رباعی اور مقابل کے صفحہ پر رباعی کی مادی تصویر گویا رباعی کے مفہوم کو تصویر سے مجسم کیا ہے۔
رعؔیت دیکھا، زمؔانہ دیکھا، خلؔافت دیکھا، حرؔیت دیکھا، بنؔدے ماترم دیکھا، اور سب پنچوں کے بیچ میں زمیندار [2] دیکھا، وہی پیج وخم، وہی تال سُر، اب دیکھتا ہوں کہ ہندوستان کی دنیا بدل گئی۔ مگر سچ بتائیے کہ کاغذ کی تَہ میں بھی کچھ ہے۔
معارف میں اتحادِ مذاہب کی انجمن پر آپ کا نوٹ پڑھا۔ کیاواقِعی آپ سمجھتے
[1] مکتوب الیہ کی رائے تھی کہ کتابیں تصوّف میں ہیں اور یہ داستان حقیقت مجاز کے رنگ میں ہے ۱۲۔
[2] یہ سب اس زمانے کے ہندوستانی اخبارات کے نام ہیں جن میں سے بعض اب بھی نکل رہے ہیں۔ ”س“