کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 131
اس گرانی کے زمانے میں بھی یہاں کا پونڈ قدرومنزلت میں آپ کے روپے کے برابر یہاں کا شلنگ، آپ کے آنے کے برابر، یہاں کا پینس آپ کے پیسوں کے برابر ہے۔ عام بول چال کی زبانوں میں ان سکوں کا نام اس بے وقعتی سے لیا جاتا ہے جیسے روپیہ آنہ پائی، کا آپ کے ملک میں۔ طرزِ لباس، سکونت اور ظاہری نمائش کے لحا ظ سے آپ تمیز نہیں کرسکتے کہ امیر کون ہے اورغریب کون۔ وہ باتکلّف اور بھڑک دار لباس اور آراستہ کرے آپ محنت و مزدوری کرنے والوں کے دیکھیں گے کہ وہ آپ کے یہاں اُمراء کو نصیب نہیں۔ ہمارا نوکر ایک پونڈ فی ہفتہ پاتا ہے۔ ہمارے یہاں ٹائپ کرنے والی لڑکی نوکر ہے۔ اس کا کوٹ ڈیڑھ سودو سو سے کم نہ ہوگا۔ ریشمی پائتا بے سے کم تو کسی راستہ چلنے والی عورت کے پاؤں میں بھی نہ پائیں گے۔ جس طرح بمبئی وکلکتہ کے مکانات آپ کے ہندوستان میں ہیں، آپ سارے انگلستان کی آبادی کے مکانات تقریباً وہی سمجھ لیجیے۔ رات کو تھیٹر اور سینما دیکھنے کے لیے ٹِکٹ گھر سے لے کر دُور تک سڑک پر لوگوں کی صف دن سے لگی رہتی ہے۔ جوپوشاک یہاں نوکر پہنتے ہیں وہ آپ کے یہاں کے بڑے صاحب لوگ بنے ہوئے فخراً پہنتے ہیں۔ قالین ومخمل پاؤں کے تلے دروازے سے لے کر کمرہ تک آپ گھر گھرپائیں گے، گھروں کی آرائش وپیرائش مشرقی قصر وایوان کومات کرتی ہے۔ کمتر کوئی ہاتھ قیمتی پتھر کی انگوٹھی سے خالی ہوگا۔ ہر بیس پچیس قدم یہاں جوہری کی دکان پائیں گے۔ سونے چاندی کے سامان دیکھیں گے۔ موٹر سے نیچے کوئی پاؤں نہیں رکھتا۔ سوال یہ ہے کہ دولت کی یہ بہتات آئی کہاں سے ؟ کیاہماری جیبوں سے؟ عرب شاعر متنبی کہتا ہے ع”مصائب قوم عند قوم فوائد۔ “ یعنی ایک