کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 13
بیکار ہورہی تھیں اور دُنیائے اسلام کی نظریں اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں اور ان کی جمیعۃ خلافت پر لگی ہوئی تھیں اور اس وقت مسلمانوں کواپنی متحدہ قوت کا اندازہ ہورہاتھا۔
دسمبر۱۹۱۹ءکی آخری تاریخیں تھیں۔ امرتسر میں کانگریس اور مجلس خلافت کے اجلاس ہورہے تھے کہ حکومت نے محمد علی اور شوکت علی کو جو چھنڈولڈہ میں نظربندتھے رہا کردیا۔ چھنڈواڑہ سے یہ دونوں سید ہے امرتسر پہنچے جہاں اُس وقت سارے ہندوستان کے ہر طبقہ کے اہل سیاست کامجمع تھا۔ یہی وقت تھا جب محمد علی اور شوکت علی صاحب وغیرہ نے اس تحریک کی کامیابی کے لیے ہندوؤں کوبھی اپنے ساتھ لیااور اسی طرح گاندھی جی اور مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلی اور محمد علی اور شوکت علی نے مل کر احیائے خلافت کے ساتھ ہندوستان کی آزادی کے لیے مسئلہ کو بھی تحریک کے مقاصد میں شامل کرلیا۔ اوراس طرح سیاست نے ہندوستان میں ایک نئی کروٹ لی۔ گاندھی جی نے اس تحریک میں عملاً حصہ لیا اورشوکت صاحب کے ساتھ مل کر سارے مُلک کا دورہ کیا۔
امرتسر کےا س اجتماع میں یہ طے ہوا کہ ہندوستان کی طرف سے چند آدمیوں کا ایک وفد انگلینڈ اور یورپ کے دوسرے اتحادی ملکوں میں بھیجا جائے جووہاں جاکر اپنے مطالبات حکومت برطانیہ اور دیگر اتحادی وزراء کے سامنے پیش کرے اور اتحادی ملکوں کی رائے عامہ کو مسلمانوں کے موافق بنائے۔
وفد کے مطالبات حسب ذیل تھے :
۱۔ ٹرکی کے سلطان کی حکومت بحیثیت اس کے کہ وہ مسلمانوں کا خلیفہ ہے، قسطنطنیہ اور اناطولیا اور آرمینیا میں مستقل و آزادقائم رکھی جائے۔