کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 129
لکھتے ہیں جن کو ہم کو برملا کہہ سکتے ہیں۔ ا نڈیا آفس یورپ کی سر زمین میں نظم ِ مملکت کے رخسارہ کا داغ ہے۔ سُنا ہے کہ اس کو کسی اخلاقی عیب میں عار نہیں۔
رمضان شریف میں تو یہاں سبھی تشریف لائے تھے، کوئی دوگھنٹے ہوئےکہ رخصت ہوئے، کل عید ہے اور صبح ووکنگ کی تیاری ہے۔ اور کل ہی ڈاک کا دن ہے۔ اس لیے ایک دن پہلے ہی خط لکھ کرڈال جاتا ہوں۔ روزے کچھ رکھے کچھ نہیں، طبیعت بیچ میں ناساز ہوگئی تھی، ا ب اس کی قضا یہاں تو کرتا نہیں، ہندوستان پہنچ کر جاڑوں میں قضا ادا ہوگی۔ یہاں کے ۱۸گھنٹوں کے روزے کی قضا نہیں معلوم وہاں کے ۱۲ گھنٹے کے دنوں میں ادا ہوسکتی ہے یا نہیں، مولویوں سے فتویٰ پوچھنا پڑے گا۔
رفیقہ صاحبہ کواگر تبدیلی آب وہوا کی ضرورت ہےتو میری طلب رضا تو ”تریاق ازعراق آوردہ شودمارگزیدہ مردہ شود“کا مصداق ہے۔ دو مہینوں کے جواب کےانتظار میں کہیں ضرورت فوت نہ ہوجائے۔ آپ توجانتے ہیں کہ میں ان چیزوں میں آزاد ہوں، ضرورت و مصلحت طلب رضاپر مقدم ہے۔ و الدہ کی اجازت کافی ہے۔ خیر اس قصہ کوجانے دیجیے۔ سات ہزار میل کے پار بھی آپ اس سے چھٹکارا نہیں لینے دیں گے۔ قصہ زمین سرزمین کمبخت اس چھوٹی سی زنجیر کا طول کس قدر ہے ؟ کہاں سے کہاں پہنچتی ہے۔
اچھا اب مزہ مزہ کی باتیں سنیے ! یورپ وایشیا کے اسلامی اخبارات پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت تمام ممالک اسلامیہ میں آگ سی لگی ہوئی ہے۔ آج ایک اخبار نے ایک کارٹون چھاپا ہے جس میں یہ نقشہ دکھایا ہے کہ انگلینڈ، فرانس اور اٹلی کھڑے ہیں اور ایک بہت بڑ اسانپ ان تینوں کے بدن میں چمٹ گیا ہے۔ اس سانپ کے کسی دھڑپر”فیوم “ لکھا ہے کسی پر ”ایران“ لکھ دیا ہے۔ کہیں ”بالشوزم “ کہیں ”ٹرکی “ غرض ایک بلا ہے جو یورپ کو چمٹی ہوئی ہے۔ یہاں اسٹرایک کا یہ