کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 124
کے درمیان حائل تھا، وہ اب اُٹھ رہا ہے، انگلستان میں خلافت کے متعلق جس قدر جلسے ہوئے ان میں انگریزوں کی طرز گفتار وتعدادِ شرکت کو دیکھ کر میں دل میں کہتا تھا کہ چونکہ براہ راست ٹرکی سے انہیں تعلق نہیں، اس لیے ان جلسوں سے انہیں ؟ نہیں مگر مئی کے اواخیر میں پہلا ہندوستان اور پنجاب کے مصائب اور ہنٹر کمیٹی کے متعلق جلسہ تھا، اس کو دیکھ کر مجھے معلوم ہوا کہ انگریز پبلک کو ہندوستان سے زیادہ ترکی سے تعلق ہے۔ خلافت کے جلسوں میں ا س سے کہیں زیادہ گرمی اور انگریز پبلک کی شرکت ہوتی ہے۔ ایک طرف تو بعض سوشیالسٹ پارٹی کے ممبر پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر اڈوائر کو گالیاں دے رہے تھے تو دوسری طرف چھت پر کھڑے ہوکر ایک انگریز جماعت اڈوائر کی حمایت میں جلسہ کو درہم برہم کرنا چاہتی تھی۔ پہلے خط میں مَیں نے لکھا تھا کہ پولینڈ کی طرف سے ایک مسلمان قسطنطنیہ کا سفیر موقع مقرر ہوا ہے۔ آج ان صاحب سے معلوم ہو اکہ امریکہ میں بھی روسی بالشویک سفیر ایک مسلمان رستم بے مقرر ہو اہے۔ و ہ امریکہ کی حالت بیان کرتے تھے کہ وہاں لاکھوں ارمن کا روبار کرتے ہیں اور انہوں نے وہاں ترکوں کو بے حد بدنام کر رکھا ہے۔ فرانسیسیوں کے متعلق میری رائے بہت بدل رہی ہے۔ مَیں نےان کو پَرلے درجہ کا منافق سمجھا ہے۔ ہند کے ایک خاص طبقہ کے اخلاق سے ان کا اخلاق بہت ملتا جلتا ہے۔ ظاہری نمائشی اخلاق ان میں بہت ہے۔ دکھاوے کی ہمدردی ان کا خاصہ قومی ہے۔ منہ پر ہر قسم کی چکنی چپڑی باتیں کریں گے مگر دل میں جو نفاق ہے وہ ظاہر نہ کریں گے۔ دنیا کے حرّیت طلب اقوام کے بیسیوں وفود ان کی باتوں میں دھوکا کھا کر ان کے سہارے اپنی آزادی کے لیے اختر شماریاں کررہے ہیں۔ و السلام ۴۶؀ لندن ۱۶ مئی ۱۹۲۰ء