کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 120
انجمنیں اور مجلسیں ہیں جن میں پالٹکس بلکہ انٹرنیشنل پالٹکس پر آزادانہ بحثیں ہوتی ہیں ابھی ابھی ایک انگریز طالب علم جس کو حقیقت میں پروفیسر کہنا چاہیے ملا، دیرتک بالشورم پر گفتگو کرتا رہا اور یہ بتاتا رہا کہ روسی مسلمانوں پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ لوتی اس کا نام ہے۔ اس نے ایک انجمن ایشیا ٹک ایسوسی ایشن قائم کی ہے جس میں ایشیا کے متعلق ہر حیثیت سے بحث کی جاتی ہے۔ ٹرکی کے شرائط صلح پر بحث کی جاچکی۔ پچھلے ہفتہ عراق کے مسئلہ پر بحث تھی۔ پروفیسر ٹوامبی ایک بزرگ ہیں جو ترکوں کے شدید دشمن ہیں۔ گورنمنٹ کی طرف سے آرمینیا کے قتل عام پر جو کتاب ازرق ( بلیوبُک ) لارڈ برائس کے نام سے شائع ہوئی اس کے مصنف یہی صاحب ہیں۔ آئندہ پروفیسر ممدوح اپنے خیالات عالیہ کی اشاعت کے لیے اوکسفورڈ کی مجلس مذکور میں جانے والے ہیں۔
بہرحال اس سے اندازہ ہوگا کہ ہندوستان کے محکمہ ٔ تعلیمات کا یہ اصول کہ پالٹکس کو احاطۂ تعلیم کے اندر داخل نہ ہونا چاہیے اور طلبائے ہندو سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھیں کس حد تک یورپین طریقہ ٔ تعلیم کے منافی ہے اورا س روک تھام سے ہمارے محکمہ ٔ تعلیم کا مدعا کیاہے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔
اوکسفورڈ میں کل ۱۸‘۱۹ کالج ہیں جن میں طلبا کی تعداد دو دوہزار ہوگی ان میں ۷۵ طلباء ہندوستانی ہیں ان میں سے ۳۰ کے قریب مسلمان ہیں۔ اس سے زیادہ تعداد کیمبرج میں ہے، کیمبرج اور اوکسفورڈ دونوں مقامات میں جس قدر کالج ہیں ان کی عمارتیں بالکل قدیم طریقہ کی ہیں اور فخراً ان کو ایسی حالت میں باقی رکھا گیا ہے تاکہ ان کی قدامت کا اظہار ہر حیثیت سے ہوتا رہے، یہ وہ قومیں ہیں جو غیر کی محکومی سے پاک رہی ہیں۔ اس لیے یہ ان کی قدامت کے آثار اب تک نقش روزگار ہیں۔
بغداد سے ایک رسالہ اللؔسان نکلتا ہے، ا س کو دیکھ کر اور یہ معلوم کر کے