کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 119
ہندوستان سے اب اور وفود کا یورپ آنا بالکل بے کار ہے۔ اب تو قصہ زمین برسر زمین ہونا چاہیے۔ پیرس میں دیگر ممالک کے مسلمانوں کے علاوہ پولینڈ کے ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی جو پولینڈ کی طرف سے سفیر ہو کر قسطنطنیہ جارہاتھا، اور اتفاق سے اس جلسہ میں شریک ہوا جو ہم لوگوں کی طرف سے پیرس میں ۲۷ مئی کو ہوا تھا۔
موجودہ البانیہ کی طرف سے بھی ایک وفد اپنی زندگی کے مطالبہ کے لیے یہاں آیاہے اس کے ایک ممبر محمت (محمد) نامی سے کل ملاقات ہوئی، ملنے کو آئے تھے، یہ کہتے تھے کہ قدیم البانیامیں ۲۰ لاکھ مسلمان تھے اور اب موجودہ البانیہ میں صرف دس لاکھ ہیں، باقی ۵ لاکھ عیسائی ہیں یہ سن کر افسوس ہوا کہ کوئی مذہبی مدرسہ ان کے ہاں نہیں۔ کچھ یونانی اور سروی مدارس ہیں، کچھ البانی مدارس ہیں، غالباً یہی حال رومانیا، سرویا، بلگیریا اور یونان کا ہوگا قسطنطنیہ سے سیاسی انقطاعِ تعلق کے بعد وہاں کے عربی دینی مدارس سے بھی ان کا انقطاع ہوگیاہے۔ مجھے تو اس کی سخت ضرورت نظر آتی ہے کہ ان ممالک کے مسلمانوں کے لیے عربی ودینی تعلیم گاہیں ان کے ملکوں میں کھولی جائیں۔ ان کی زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمے ہوں۔ مذہبی رسائل تالیف پائیں۔ و رنہ اگر آج خبر نہ لی گی تو کل دو ہی نتیجے ہوں گے یا وہ عیسائیوں میں جذب ہوجائیں گے یا جاہل وبے دین رہ جائیں گے، درحقیقت یہ بھی ایک بڑا کام ہے۔
اوکسفورڈ اور کیمبرج دیکھ کر یہ معلوم ہو اکہ مشرقی و مغربی طرز تعلیم وتربیت میں کیا فرق ہے، مشرقی طالب علم کا مدعا یہ ہے، یایوں کہیے کہ مشرقی مدارس کا مقصد یہ ہے کہ طالب علم زیر درس علوم میں ماہر ہوجائے۔ لیکن مغربی طرز تعلیم کا منشا یہ ہے کہ طالب علم کے تمام قوائے جسمانی و دماغی واخلاقی میں بالیدگی ہو۔ علاوہ تعلیم کے لہو و لعب، ورزش جسمانی، کشتی رانی کی خاصی مشق کرائی جاتی ہے، ان کے یہاں