کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 115
نے رخنہ اندازی کی بہیتری کوشش کیں، مگر ناکام رہیں۔ پہلے تو ہم لوگوں کو کچھ خوف ہوا کہ برہمی نہ پیدا ہوجائے۔ مگر بلآخر ہمیں فتح حاصل ہوئی۔ چالاکی سے ارمینیوں اور یونانیوں نے مظلوموں کی فہرست میں عربوں کو بھی داخل کیا۔ مگر ہم لوگوں کے علم کے بغیر دفعۃ ً شامی ومصری عربوں نے اُٹھ کر ہماری تائید میں تقریریں کیں، تو ان کےہاتھ پاؤں پُھول گئے۔ مجمع مسٹر لائڈ جارج اور موسیو و نیز یلوس کے نام سے بار بار نفرت کا جو اظہار ہو رہا تھا، ا س ہفتہ ایک فرنچ مستشرق مو سیو لوئی سیناں ملنے کے لیے تشریف لائے یہ وہ صاحب ہیں جو امیر فیصل کے بہکانے کو عرب بھیجے گئے تھے۔ بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرتے تھے، بات بات پر قرآن کی آیت پیش کرتے تھے کہ کیا کیجیے تقدیر یوں ہی تھی، تقدیر سے چارہ نہیں، مسلمانوں کو تقدیر پر شاکر رہنا چاہیے، صبر وشکر سے کام لینا چاہیے، ا ولیاء وانبیاء کا یہی طریقہ تھا۔ دولت و سلطنت آنی جانی چیزیں ہیں۔ ا س وقت مجھے ڈاکٹر اقبال کی مثنوی کا وہ واقعہ یاد آیا، جس میں انہوں نے بھیڑیے اور بکری کا قصہ لکھا ہے۔ مجھے بڑ اغصہ آیا اور نہایت ترش وتلخ جواب دیے۔
ترک پیرس میں شرائط صلح کا جواب تیار کررہے ہیں، معلوم ہوا ہے کہ ایک ایک دفعہ کا نہایت سکت ومدلل جواب لکھ رہے ہیں۔
ہم پرسوں ۲۹ کی صبح کو لندن واپس جائیں گے۔ یکم جون کو آکسفورڈ جانا ا ور ۸ جون تک پھر پیرس واپس آنا ہوگا۔ پرسان احوال کو سلام، ہاں جلسہ میں پولینڈ کے ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی، و ہ پولینڈ کی طرف سے قسطنطنیہ میں سفیر مقرر ہوئے ہیں۔
۴۲ لندن ۳ جون ۱۹۲۰ء
برادر عزیز سلام ِ شوق
خط مورخہ ۲۸ اپریل ‘۲۷ مئی کو ملا، یا د آوری کا شکریہ ! آپ کے خط سے