کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 112
انگریزوں کو خوش کر کے ان کی دلجوئی سے کچھ مل سکتا ہے، برطانی قفس کا ہر مُرغ نَواسیرپہلے یہی خیال کرتا ہے اور اپنی رہائی کی یہی تدبیر سمجھتا ہے، حالانکہ یہی چیز اس کے بند بند کو زنجیر میں جکڑ دیتی ہے۔ پیرس میں ہمارا کام یہاں کے مختلف ارباب سیاست، ا سلام اور مسلمانوں سے محبّت وہمدردی رکھنے والوں، عام انسانی آزادی کے طلبگاروں سے ملنا جلنا ان کو دعوتوں میں بُلانا، اپنے مطالب واغراض سے آگاہ کرناہے۔ شب وروز یہی کام اور یہی شغل ہے۔ مجھے تو فرانسیسی نام یادنہیں رہتے ورنہ ایک ایک کے نام و نشان لکھتا۔ بالشویکوں نے ایران پر جو حملہ کیا ہے کہ انگریزوں کو ملک سے اس لیے باہر کریں کہ ان کی طمع شہنشاہی کو شکست ہو، اس سے انگلینڈ وفرانس کے مزدور پیشہ اخبارات بہت خوشی منارہے ہیں۔ مولوی عبدالسلام صاحب سے کہئے کہ ان کو موسیو لیبان زندہ ہیں ا ن سے ملنے جاؤں گا۔ کل وفد کی طرف سے چند پروفیسر وں کی دعوت تھی جن میں ایک صاحب ارمنوں کے نہایت ہمدرد دوست تھے، و ہ میرے سامنے اور مولوی ابوالقاسم کے پہلو میں بیٹھے تھے، سب کسی نہ کسی موضوع پر باتیں کررہے تھے، میں نے ابوالقاسم سے کہا کہ ان سے ذرا امرتسر کے قتل [1]عام کی داستان تو بیان کیجیے، انہوں نے وہ سلسلہ ٔ گفتگو شروع کیا تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہے اور تحریک کی کہ ان حالات کو فرنچ کیوں نہیں لکھتے۔ میں نے کہا کہ ابھی ارمنوں کے قتل عام کی داستان سننے سے فرصت نہیں اب تو خود اہل یورپ مان چکے ہیں کہ ارمنوں کے قتل عام کے واقعات زیادہ تر خود غرضی سے فرضی مشہور کئے گئے ہیں۔ آپ نے میرا فوٹو مانگا ہے۔ لندن کے ایک مشہور فوٹو گرافر نے خود اپنی
[1] جلیاں والی باغ ۱۲