کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 110
آپ کے دوخط ایک ہی ہفتے میں ملے، خد اکا شکر ادا کیا کہ ہندوستان میں اب اس قد رارزانی ہوگئی ہے کہ لوگ دوستوں کو ہفتہ میں دو خط لکھنے لگے ہیں۔ ہندوستان کی کیفیت جو کچھ آپ نے لکھی ہے حوصلہ افزا ہے۔ صرف دو باتوں کی ہمیشہ ضرورت رہی اور اب بھی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ ہمارے جوش وخروش کا طوفان آنی نہ ہو بلکہ اس کو استقلال واستقامت نصیب ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں ہمیشہ سے کہتا ہوں کہ دفعتاً اظہار جوش میں مسلمان تمام دنیا کی قوموں سے آگے ہیں، لیکن وہ جوش وخروش جو غور وفکر اور عقل وہوش کے ساتھ ہوس کا فقدان ہے۔ وہ وہ دریا ہیں جس میں روانی ہے لیکن عمیق نہیں۔ اور یہی ہماری ناکامی کا بڑا راز ہے۔ محفل کی تقریروں سے گرما کر ہم سب کچھ کرسکتے ہیں لیکن خلوت خانے میں بیٹھ کر اور ایک بات پر جم کر ثباتِ عقل وہوش کےساتھ کام کرنے کی غیر متزلزل آمادگی نہیں پیدا ہوئی ہے۔
دوسری چیز جو ہم میں نہیں وہ نظم وترتیب وتنسیق ہے جس کو آرگنائزیشن کہتے، آپ بھی اپنے خط میں اس کمی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ہمت کرتے ہیں کہ فیض آباد کی خلافت کانفرنس میں رہنما یا ن ِ قوم کو اس پر سخت لعنت وملامت کریں گے۔ یہ خیال قوت سے فعل میں بھی آیا۔ آپ کی قوتِ تقریر نے جو نیا جلوہ دیکھا ہے میں بھی اس کے دیکھنے کا مشتاق ہوں۔ خلافت کے کام سے اگر فرصت ملی تو یہی جماجمایا جوش ہندوستان کی آزادی میں نمایاں کرنا چاہیے، فرانس میں جس صاحب ِ فکر سے ملیے ہندوستان کی ملکی آزادی کا سوال پہلے کرتا ہے۔ پھر مسئلہ خلافت پر ہماری تقریر سنتا ہے، یورپ میں قوموں کی آزادی کا ولولہ پیدا ہے۔ مزدور پیشہ طبقہ یورپ میں چونکہ خود مبتلائے مصائب ہے اس لیے دوسرے مبتلائے مصائب قوموں سے اسے ہمدردی ہے۔ افسوس ہے کہ