کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 109
معاملہ کو ختم کردو۔ “مولوی ابوالقاسم نے کہا کہ ”اگر یوں ہی ہے تو کل آپ مسلمانوں کو مسجد جانے سے روک دیں گے۔ ا ور جب وہ شوروغل کریں گے تو آپ فرمائیں گے کہ خیر اب تو ہوچکا۔ بہتر ہے کہ اب اس معاملے کو جانے دو۔ “ جواب دیا کہ ”نہیں ایسا کہیں ہوسکتا ہے دونوں معاملوں میں بہت فرق ہے۔ “مولوی ابوالقاسم نے کہا کہ ”اس فرق کا فیصلہ صرف ہم ہی کرسکتے ہیں۔ “ چوتھے دن یعنی۷ جون کو مولوی صاحب تنہا پھر پیرس گئے ہیں، ا ور سید حسین صاحب بھی جو آکسفورڈ کی ایک سوسائٹی میں تقریر کرنے کو بھیجے گئے تھے وہاں سے واپس آکر آج پیرس گئے وہاں ایک انجمن ”حمایت حقوق انسانیت“ ہے ازراہ ِ انسانیت اس نے اپنے جلسہ میں وفد کو بھی اپنا مسئلہ پیش کرنے کا موقع دیا ہے۔ ا ور اسی لیے یہ دونوں صاحب گئے ہیں۔ ایک بات سے خوشی ہوئی۔ اب تک ترک، ترک قوم کی حیثیت سے سلف ڈٹرمینشن کے اصول پر اتحادیوں کے سامنے مسئلہ پیش کررہے تھے، کل قسطنطنیہ کے ایک نامہ نگار کی اطلاع سے معلوم ہوا کہ اب وہ ہمارا نقطہ ٔ نظر اچھی طرح سمجھ گئے ہیں۔ ا ور خلافت اور اقتدار خلافت کے مسئلہ کو سب سے آگے کررہے ہیں۔ الحمد للہ، ثم الحمد للہ اگر ترکوں نے حقیقت میں اپنے جواب میں اس مسئلہ کو راس المال کی حیثیت سے پیش کیا تو ہماری کامیابی مسلّم ہے۔ افسوس کہ برٹش گورنمنٹ ابھی واقعہ کی تہہ کو نہیں سمجھی اور وہ پچھلے تجربوں کی بناء پر یقین کرتی ہے کہ طے ہوجانے کے بعد یہ جوش خود بخود ہوجائے گا۔ اگر تقسیم بنگا ل کا جوش ۶برس تک قائم رہ سکتا ہے تو کیا تقسیم خلافت کا جوش ۶ برس کی عمر بھی نہ پائے گا۔ ۴۰؀ پیرس ۲۰ مئی ۱۹۲۰ء م‘ع برادر محترم، السلام علیکم،