کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 108
خلافت کہتے کس کو ہیں اور جزیرۃ العرب کے حدود احکام کیا ہیں ؟ انہیں، ا قرار کرنا پڑا کہ ہم اب تک ان سے لاعلم تھے۔ یہاں کی موجودہ پالیٹکس یہ ہے کہ بالشویک کو ڈرا کر دھمکا کر اور سمجھا کر اپنے میں شامل کیا جائے، روسی ایجنٹ جو یہاں آکر ٹھہرا ہوا ہے اس کو لائیڈ جارج صاحب بڑے نازوانداز سے کبھی ہاں اور کبھی نہیں کہہ کر اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ا ور وہ اپنے نزدیک یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان صرف ان ہی کے زور پر اُچھلتے ہیں۔ اس لیے ان کو توڑ لینا چاہیے، حالانکہ وہ سخت غلطی کررہے ہیں، مسلمانوں کو بالشویکیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مصر یوں کو بھی آخر چُمکا کر راضی کیا جارہاہے۔ کالونیل آفِس میں اُن ”باغیوں“ کو ٹی پارٹی دی جارہی ہے۔ جن کو گذشتہ زمانہ میں ابھی مالٹا گرفتار کر کے بھیجا گیا تھا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ٹیونس سے بھی ایک وفد پیرس آرہاہے جو اپنے استقلال اور دوسرے مسئلہ خلافت کو حکومت فرانس کے سامنے پیش کرے گا۔ دوسرےممالک کے مسلمانوں سے یہیں کے مسلمان مجھے زیادہ پسند آئے۔ آج مولوی ابوالقاسم [1] صاحب ایک اور ضرورت سے انڈیا آفِس گئے تھے مسٹر مانٹیگو نے ان کو بلا کر ملاقات کی۔ ا ور منجملہ اور باتوں کے ایک یہ بھی فرمایا کہ مجھے مسلمانوں سے بڑی ہمدردی ہے اور میں نے ان کے لیے بڑی کوشِش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ مگر اب شرائط صلح جب پیش کئے جاچکے اور تصفیہ ہوچکا توبہتر ہے کہ اب ا س
[1] مولوی ابوالقاسمصاحب بردوانی ( بنگال) پالٹیکس میں سر ؟ روتاھ بزجی کے رفیق تھے، انگریزی بہت اچھی جانتے تھے، تقریر خوب کرتےتھے افسوس ہے کہ ۱۱/اکتوبر ۱۹۳۶ء کو ۶۵ سال کی عمر میں وفات پائی۔