کتاب: بریدفرنگ - صفحہ 106
نیواسٹیٹس میں لندن میں چھپا تھا، میں نے اس کا جواب لکھا اور وہ اس ہفتہ کے نمبر میں شائع ہوا ہے۔ بریٹین اینڈ انڈیا ایک نیا پرچہ نکلنا شروع ہوا ہے۔ ایک انگریز خاتون اس کی ایڈیٹر ہیں۔ اپریل نمبر میں” پردہ اور موجودہ نسوانیت ہند“ پر ایک مضمون نکلا تھا، اس کا جواب لکھ کر اس کے پاس بھیج دیا ہے معلوم نہیں اس مہینے میں وہ جواب شائع ہوگا یا نہیں، ایک جلسے میں مَیں نے تقریر کی تھی وہ بھی اس نے لے لی تھی کہ رسالہ میں شائع کروں گی۔ پیرس میں مَیں نے عربی میں جو تقریر کی تھی وہ تیونس کے اخبار الصواب میں شائع ہوئی ہے۔
موسیو لیبان سے ملنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اور خصوصاً یہاں اُردو کے پروفیسر سے، کیمبرج کی مجلس طلبائے ہند میں میں نے ”اردو یاہندوستانی زبان کی ضرورت “ پر تقریر کی تھی، ا وائل جون میں آکسفورڈ کا قصد ہے۔ آپ کا ”پیام امن “ ہم سپاہیوں کے دلوں کو سرد نہیں کرسکتا۔ میں نے جیسا آپ سے زبانی عرض کیا تھا، پھر عرض کرتا ہوں کہ آپ کا فلسفہ محکوم قوم کو نہیں، حاکم قوم کو درکار ہے ؏
جو خود ہی مررہا ہو اس کو گر مارا تو کیا مارا
مَیں آپ کے اس خیال سے قطعاً اختلاف کرتا ہوں کہ پیامِ امن کے دیباچہ میں آپ مذہباً قرآن و حدیث سے اپنے فلسفہ کے اثبات کی کوشش کریں جو مجھ کو سنایا ہے وہ آپ بھی سنیے ؎
رفتار اور ہمت میں موجِ ہو ا کی ہے
اس لیے بالکل یہ بانگ بے ہنگام ہوگا۔ دوسرے آپ کی طرف سے لوگوں کو جو مذہبی بدگمانی ہے وہ اور زیادہ تیز ہوگی۔ تیسرے میرے خیال میں یہ تحقیق واقعہ کے مطابق بھی نہ ہوگی۔ میں نے یہ کب کہا ہے کہ دشمن کے مکرواحتیال پر لعنت کرتا ہوں۔ مَیں نے تو یہ کہا کہ وہ باطل کے لیے جن ہتھیاروں سے لڑتے ہیں حیف ہے کہ ہم حق کے لیے ان کا استعمال نہ کریں، جو قرآن آپ کے زیر مطالعہ ہے